عالمگیریت اور مساوات

لوگوں کے رنگ، نسل، تمدن، تہذیب اور معاشی و معاشرتی حاالت سے متعقلہ یکسانیت کے اصول آج کی غالب تہذیبوں کے نظریات سے غائب ہیں۔ھندوستانی معاشرے نے صدیوں سے جاری شدہ ذات پات کے سخت نظام کو برداشت کیا ہے، جہاں بعض لوگوں کو تو

خدا و دیوتا کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور دوسری طرف بعض کو بمشکل ہی کسی غالم کے سے حقوق میسر آتے ہیں ۔ عیسائیت کو قدر کم ہی کبھی زندگی گزارنے کے اصول کے طور پر الگو کیا ہو مگر اس کی موجودہ تعلیمات میں بھی امتیازیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ تالمود ) موجودہ یہودیت کی اساس( کے مطابق یہودیوں کو دیگر تمام غیر اقوام پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔

اس گفتگو کو کمیونسٹ کے برابری کے نعرے - سب افراد یکساں ہیں- کو زیر بحث الکر مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے ، جو کہ حقیتا کبھی عمل میں نہیں الیا گیا۔ درحقیقت اس کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ بعض لوگ بعض سے زیادہ یکساں ہیں۔ کیپیٹل ازم، جیسے بہت سے مغربی میں معاشروں میں الگو ہے، نظریاتی طور پر قطعا موزوں نہیں کہ مساوات کا اطالق کر پائے۔بلکہ یہ تو امیر اور غریب کے درمیان امتیازی لکیر کو بڑھاوا دیتا ہے۔شولزم ، جو بظاہر تو کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے اغالط کی درستگی کرتا ہے

مگر بڑے واضح انداز میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے خال کو برقرار رکھتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ اور ابھی تک اپنے آپ کو بہتر متبادل ثابت نہیں کرسکا۔

مگر بڑے واضح انداز میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے خال کو برقرار رکھتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ اور ابھی تک اپنے آپ کو بہتر متبادل ثابت نہیں کرسکا۔ موجودہ زمانے میں زندہ جتنے بھی نظریاتی نظام ہیں ان میں صرف اور صرف اسالم ہی وہ واحدانتخاب ہے جو قابل اطمینان ہے کیونکہ یہ انسانیت کے حقوق کا محافظ ہے اور تمام انسانوں کو خدا کے کنبے کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں وہ سب تمام اختالفات کے باوجود امن اور سکون سے رہتے ہیں۔ تاریخی اور معاصر شواہد اسالم کی مساوات میں ایسی دلیل قطعی ہیں کہ کسی بحث کی گنجائش نہیں رہنے دیتے ۔

موجودہ زمانے میں زندہ جتنے بھی نظریاتی نظام ہیں ان میں صرف اور صرف اسالم ہی وہ واحدانتخاب ہے جو قابل اطمینان ہے کیونکہ یہ انسانیت کے حقوق کا محافظ ہے اور تمام انسانوں کو خدا کے کنبے کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں وہ سب تمام اختالفات کے باوجود امن اور سکون سے رہتے ہیں۔ تاریخی اور معاصر شواہد اسالم کی مساوات میں ایسی دلیل قطعی ہیں کہ کسی بحث کی گنجائش نہیں رہنے دیتے ۔

1-عیسائیت اورمساوات:

میں اس باب میں عیسائیت کی تعلیمات کا جائزہ لوں گا تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کیا ایسے نظریات دنیا کےتمام لوگوں کے

لیے ،تفرقات کے باوجود، قابل اطمینان ہیں؟ آسانی کے لیے عیسائیت کی کتاب بائبل کا حوالہ دیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ ان کا پیغام محدود عوام ، محدود وقت اور محدود خطہ کے لیے تھا ۔ چناچہ اس میں عالمگیریت کی کشش موجود ہی نہیں۔

ی المسیح علیہ السالم کو جو پیغام مال تھا وہ متی کے مطابق عیس ٰ ی علیہ السالم کی المسیح صرف ایک قوم کے لیے محدود تھا۔عیس ٰ جانب سے اپنے شاگردوں کو واضح طور پر ہدایات تھیں کی وہ یہ پیغام بنی اسرائیل کے قبائل سے باہر نہ لے کر جائیں۔

غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔

بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا

)متی باب 10 فقرہ 5،6)

المسیح علیہ السالم سے منسوب ایک اس نکتہ کی وضاحت عیس ٰ اور واقعہ سے بھی ہوتی ہے۔

پھر یسوع وہاں سے نکل کر صور اور صیدا کے عالقہ کو روانہ ہوا۔ اور دیکھو ایک کنعانی عورت ان سرحدوں سے نکلی اور پکار کر کہنے لگی اے خداوند ابن داؤد مجھ پر رحم کر۔ ایک بدروح میری بیٹی کو بہت ستاتی ہےمگر اس نے اسے کچھ جواب نہ دیا اور اس کے شاگردوں نے پاس آکر اس سے عرض کی کہ اسے رخصت کردے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چالتی ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ مگر اس نے آکر اسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند میری مدد کر۔ اس نے جواب میں کہا لڑکوں کی ر

)متی باب 15 فقرہ 21-26)

ی المسیح علیہ السالم نے واضح کیا ہے ان اقتباسات کے مطابق عیس ٰ کہ ان کا پیغام بنی اسرائیل تک ہی پہنچایا جائے نہ کہ تمام اقوام کہ لوگوں تک۔تاہم ایک مسلمان ہونے کہ ناطہ جو اس بات پر ایمان ی کہ ایکی کہ ایک ٰ ی المسیح علیہ السالم ہللا سبحانہ و تع

عظیم الشان اور جلیل القدر نبی تھے، میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ انہوں مندرجہ باال بائبل میں مرقوم گفتگو کبھی نہیں تکلم فرمائی۔)متی باب 15 فقرہ 26)


ہل اور شیڈل )1996 )میں ذکر کرتے ہیں کہ یورپی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ نامناسب رویہ ہی رکھا گیا ہے۔" مغربی یورپی تاریخ اور روایت میں عام طور پر سیاہ فام لوگوں کو الگ تھلگ ہی رکھا ہے۔ یا تو ان کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیا گیا، کبھی بھال دیا گیا یا کبھی ان کے 2 کردار کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔

جبکہ خدا کے پیامبر کبھی نفرت، بغض، عناد، یانسلی امتیاز جیسی کسی شے کی دعوت نہیں دے سکتے ۔ بائبل میں وقت گزرنے کے ساتھ اپنے اپنے ذاتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے ایسے اضافے کیے گئے جن سے امتیازی سلوک کی بدبو آتی ہے

نے ایک کوشی عورت سے بیاہ کر لیا۔ سو اس کوشی "اور موس ٰ عورت کے سبب سےنے بیاہ لیا تھا مریم اور ہارون اس کی بدگوئی کرنے جسے موس ٰ لگے۔ )گنتی باب 12 فقرہ 1)

پرانے عہد نامہ سے ایسے اقتباسات بیان کرتے ہیں کہ افریقی نسل کےیہودیوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ اسی امتیازی رویہ نے افریقی امریکی عیسائیوں میں احساس پیدا کیا اور بعد ازا نتیجہ با اثر افریقی امریکی کلیسا کے طور پر نکال۔ گڈ فرائی ڈے)ایسٹر سے پہلے کا جمعہ(،1993 ،آرچ بشپ جارج اگستس اسٹالنگز، جے۔ آر آف وشنگٹن ڈی۔سی، نےعیسی المسیح علیہ السالم کا ایک سفید رنگ واال پتال جالیا اور کہا کہ یہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں۔ یسوع 3 افریقی-ایشیائی یہودی تھے۔ دنیا کے طاقت ور ترین ملک میں نسلی امتیاز اور نسل پرسی کی صورت حال یہ ہے کہ تقریبا 327 گروپس 4 سفید فام لوگوں نے پورے امریکہ میں بنا رکھے ہیں۔

2-یہودیوں کا دوسری اقوام کے بارے میں نظریہ:

اس باب میں ہم یہودیت کی حقیقی امتیازی ساخت کا جائزہ لیں گے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام انسانیت کا رہبر اور عالمی نظام زندگی بننے کے لیے غیر مناسب ہے۔ یہودیت کی امتیازی ساخت کے عالوہ بھی یہودی البی )پیش گاہان ( بہت طاقتور اور بااثر ہیں یہاں تک کہ امریکی خارجہ پالیسی کے بننے میں ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور خاص طور سے اسرائیل سے متعقلہ خارجہ پالیسی میں یہودیوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے

یہودیوں کی اہم کتاب، تالمود، جو یہودیوں کے نزدیک افضل اور معتبر کتاب ہے۔ یہودیوں کو دیگر اقوام سے برتر اور اعلی تر درجے پر فائز کرتی ہے۔ یہودی خدا کے چنے ہوئے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اعلی و افضل ہیں اور ان کے اردگرد کثیر تعداد میں غیر اقوام )غیر یہودی( سے لوگ سب ناپاک اور درجہ دوم کے انسان سمجھے جاتے ہیں۔

اپنے آپ کو اعلی اور برتر اور دیگر اقوام کو ناپاک سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کو کوہ سینا پر کچھ ایسا دیا گیا جو غیر اقوام کو نہیں دیا گیا۔

جب سانپ حوا کے پاس آیا تو اس نے ان میں ایک گندی حوس ڈال دی۔۔۔ اور جب اسرائیل کوہ سینا پر پہنچا تو یہ حوس مٹا دی گئی مگر مشرکین کی حوس ، جو کوہ سینا پر نہیں آئے تھے، نہیں مٹائی

۔)آبدہ زارہ 22ب(

آئیے زوہار میں دیکھتے ہیں، جہاں یہودی ربی نے کتاب پیدائش کے اس فقرے کی یوں تشریح کی ہے "اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھاچاالک تھا"۔ ان کی تشریح ہے کہ:

یعنی سانپ برائی میں زیادہ چاالک تھا بنسبت تمام دشتی جانوروں کے۔ اور زمین پر مشرکین اور بت پرست اسی قدیم سانپ کے بچے ہیں جس نے حوا کو بہکایا تھا۔

)زہار 28:1ب(

ور پھر تمام غیر یہودی )غیر اقوام( چاہے عیسائی ہوں ، بدھ مت یا ھندو سب کے سب کسی بھی طور سے یہودیوں کے برابر نہیں ہیں۔ اور یہودی تعلیمات ان کو غیر انسان مخلوق سمجھتی ہیں۔ ذیل میں تالمود کے اقتباس میں جس طرح دیگر لوگوں کی ہتک کی گئی ہے اسے پڑھ کر کوئی بھی پریشان ہو سکتا ہے۔

ایک غیرقومی۔۔۔ )ایک یہودی تو اس کا ہمسایہ ہوسکتا ہے ( مگر جوابا وہ )غیر قومی یہودی کا( ہمسایہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ )یہودی(اس کے کسی نقصان کا ذمہ دار ہے جو اس کی کوتاہی سے )ہی کیوں نہ(ہوا ہو۔ نہ ہی وہ اس کے مویشیوں پر نظر رکھے گا۔ یہاں تک کہ غیرقوموں کے لیے بہترین طور طریقے بھی بدلے میں قبول کرنے کے قابل نہیں۔

۔(13b.Bek(

مالحظہ کیجئے کہ قرآن کے بیان کردہ انصاف کے تقاضوں سے یہ باتیں کس قدر ٹکراتی ہیں۔

"اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے

(5:8 القرآن)

عیسائی اور دیگر غیریہودیوں) کو تالمود میں کافر کہا گیا ہے اور وہ بھی (یہودیوں کی نفرت اور بے اعتباری سے بچ نہیں سکے۔

اگر کسی اسرائیلی اور یہودی کے درمیان کوئی معاملہ پیش آجائے تو اس کی توجیح اسرائیلی قوانین سے کر کے اس کو مطمئن کیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ ہمارا قانون ہے ۔ اسی طرح اگر تم اسے کافروں ہی کے قوانین سے مطمئن کرو تو اسے کہو یہ تمھارا قانون ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو ہم بہانے سے اسے دھوکاں۔ دیت

(baba kama 113a)

دی جیوئش انسائکلوپیڈیا (Encyclopedia Jewish The(نے یہودی داناؤں کی آراء کا خالصہ کچھ یوں بیان کیا ہے۔ مشنا۔۔۔اگر کوئی غیر قومی اسرائیلی پر مقدمہ کرتا ہے تو فیصلہ مدعا علیہ کے لیے ہوگا اور اگر کوئی اسرائیلی مدعی ہو تو وہ نقصان کا پورا بدلہ پائے گا۔

تالمود سے ایسے بہت سے اقتباسات ہیں جہاں غیر یہودیوں کو ناپاک اور کم تر تصور کیا جاتا ہے۔ اور یہ بات یہاں تک سختی سےمانی جاتی ہے کہ اگر ان غیر یہودیوں میں سے کوئی ان کے مذہب میں داخل ہونا بھی چاہے تو یہودی اسے قبول نہیں کرتے ۔ درحقیقت تورات کا کسی غیر قومی کو سکھایا جانا موت کی دھمکی کے ساتھ ممنوع ہے:

چنانچہ تالمود نے غیر قومی کو تورات کی تعلیم دینا ممنوع قرار دیا ہے، یعقوب آر جاہنن کی جماعت کی وارث جماعت نے یہ واضح کیا ہے کہ جو کوئی ایسی جرات کرے گا تو ایسا شخص موت کا مستحق ہے

ایسا نظام جو انتہا درجہ کا امتیازی ہے وہ عالمی طریقہ ہائے زندگی کی ساخت نہیں ہوسکتا۔ بہت سے اسرائیلی رہنما غیر یہودیوں کی زندگی کو قدر اور اہمیت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ منیم بیگن کی رائے میں لبنان کے پناہ گزیں خیموں، سابرہ اور شیٹیالہ میں کی جانے والی زبردست نسل کشی اس رویہ کا عکس ہے:

گوئم )یعنی غیر اقوام( گوئم کو قتل کر رہے ہیں اور وہ یہودیوں کو پھانسی دینے آئے تھے

کچھ لوگ یہ کہ سکتے ہیں کہ موجودہ یہودیت ایسے بنیاد پرست اور نسل پرست نظریات پر نہیں کھڑی ۔ تو آئیے اسرائیل کی کلیدی دفاعی مختیار کو سنتے ہیں کہ انہوں نے لبنان میں کیا کیا۔ سنے والے ان کے تالمودی انداز میں گفتگو کرنے سے حیران رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تب ملتی ہے جب بیگن نے غرور کے ساتھ

امریکیوں کو اس نسل کشی کے بارے میں اطالع دی جو وہ کر چکا تھا۔ ہم اپنوں کے عالوہ کسی کو اپنے افعال پرجواب دینے کے مجاز نہیں

باالفاظ دیگر یہودی غیر قوم کی تنقید کے باالتر ہیں۔قابض ہونے سے متعلق صیہونی حکمت عملی پر اگر نظر دوڑائی جائے تو فلسطین کے ساتھ ان کا رویہ ان کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے اور فی الواقع ان کے شدید ظلم اور زیادتی کو بے نقاب کرتا ہے جو یہ عورتوں، بچوں اور الچار بوڑھوں پر کرتے ہیں۔ اسرائیلی عہدداران غیر اقوام کے قوانین کو جو یہودیوں کے مفاد میں نہیں ہوتے واشگاف الفاظ میں انہیں رد کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے اس فیصلہ کہ بٹوارے کی دیوار کی تعمیر عالمی قوانین کی خالف ورزی ہے کے بعد ، یوسف لےپڈ، اسرائیل کے وزیر انصاف ، نے سرکاری ریڈیو کو 10 جوالئی، 2004 ،کو

بتایا کہ ہم ہیگ میں منعقدہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی بجائے اپنی عدالت عالیہ کے فیصلہ کو ترجیح دیں گے نہ کہ انٹرنیشنل کور ٹ آف جسٹس کو۔ ہر غیر یہودی شے کی جانب یہ تحقیر کا خالص صیہونی تالمودی نظریہ ہے۔ ساری دنیا ہمیشہ غلط ہے۔ نیز اقوام متحدہ کی دسیوں قرارداد یں کہ اسرائیل درست نہیں۔ فلسطینی پناہگزیں کیمپس پر بہت سے خون ریز اور نسل کش حملے اور غیر امتیازی قتل صہیونی حق ہے اور وہ دفاع میں کیے جاتے ہیں۔ صحافیوں اور امن کے لیے کوشاں افراد کے ساتھ بدتمیزی اور ان کا قتل ایک چھوٹی سی غلطی ہے۔

یہ رویہ صرف ان کے سیاستدوانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہودی ربی اور کیمیادان ریہووٹ ، اسرائیل کے موشے انتیلمان نے سور کے گوشت کی چربی والی گولی (bullet (تیار کی ہے ۔

انتیلمان، ایک ربی اور ایک کیمیا دان ، نے دیندار مسلمانوں پر استعمال کرنے کے لیے سور کے گوشت کی چربی سے پر بارود تیار کیا ہے، انتیلمان کا سوچنا ہے کہ سور کے گوشت کے چھونے 10 سے مسلمان جنت میں جانے والی روح سے محروم ہو جائیں گے

اس ربی نے ویسٹ بینک سیٹلرز کے سامنے اس نئی ایجاد کو پیش کیا ہے اور اس عسکری پورک )سور کا گوشت( سے متعلق 11 پینٹاگون کی توجہ کی امید کرتا ہ

یہ صرف ایک مثال ہے کہ کیسے یہودی رہنما دیگر اقوام کے لوگوں کی عزت اور تکریم کرتے ہیں۔

دیگر اقوام سے متعلق صیہونیوں کی نفرت اور ایک عجیب احساس برتری نے انہیں اس بات کی جرات دی ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھی و ہم نوا ، امریکی شہریوں، پر بھی پر بندوقیں چالئیں اور بہت سے فوجیوں کو مار ڈاال، جس کی مثال ان کے سیویج اٹیک سے ملتی ہے کہ جب انہوں نے دن دھیاڑے امریکی بحریہ کے جہاز "لبرٹیپر حملہ کیا تھا

یک انٹرویوں میں امریکی نژاد یہودی فلسفی اور ایم۔ آئی ۔ٹی کے ماہر لسانیات، پروفیسر نوائم چامسکی ، نے ایک سوال کے جواب میں دیگر اقوام سے متعلق یہودی نظریہ کے بارے میں یوں کہا:

اگر آپ قدیم یہودیوں کو دیکھیں، چاہے مشرقی یورپ کے یہودی یا شمالی افریقہ کے، ایک عیسائی ہونا یا غیر یہودی ہونادراصل ایک ایسی مخلوق ہونا تھا جو یہودیوں سے کم تر ہے۔ مثال کے طورپر یہودی ڈاکٹر کو روا نہیں کہ وہ کسی غیر یہودی کا عالج معالجہ کرے چہ جائے کہ اس سے کوئی نفع یہودیوں کو پہنچتا ہو۔ سلطان کا ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے یہودی فوائد اٹھا سکتے 13 ڈاکٹر میمونیڈز تھے مگر اس سے کے عالوہ قطعا نہیں۔ اور جب چامسکی سے یہ سوال کیا گیا :

کہ کیا یہ کوئی تمدنی و تہذیبی روایت تھی یا مذہبی ؟ اس نے کہا:

یہ "حلقہ" سے ہے، یعنی ربانی روایت۔ اور اس طرح کا اور بہت کچھ ہے۔ یہ )یہودی( ایک طرف تو مظلوم اقلیت ہیں مگر دوسری طرف نسل پرست۔ اور یہ نسل پرستی تب بڑھ گئی جب یہ ظلم سے آزاد، ایک نسل پرست اکثریت ہوئے۔ پہلے حصہ میں ہم نے یہودیوں کا دیگر اقوام کے بارے میں نظریہ پر گفتگو کی۔ مصنف نے یہودی ماخذ سے بہت حوالہ جات فراہم کیے ہیں جس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ غیر اقوام کے ساتھ امتیازی سلوک ایک نظریاتی مسئلہ ہے اور صہیونی یہودیوں کا دینی فریضہ ہے۔تاہم یہودیت صرف مورثی ہے، اور کسی بھی قوم کا فرد اس کا حصہ نہیں ہوسکتا ۔ دیگر تمام اقوام کے افراد اس تنگ نظر نظم کا حصہ بنے سے دور رکھے گئے ہیں کہ جہاں یہودیوں کو بال دلیل تمام اقوام سے باالتر سمجھا جاتا ہے ، صرف اس لئے کہ وہ یہودی ہیں۔

3-ہندوستان میں معاشرتی مذہبی نظام:

اس حصہ میں ہم دیکھیں گے کہ جس طرح نسل پرست تعلیمات کی وجہ سے یہودیت عالمی نظام ہونے کے الئق نہیں ہے ٹھیک اسی طرح ہندومت بھی نسل پرست وجوہات کی بنا پر اپنے آپ کو عالمی

بلکہ اس مذہب کا ایسا جزو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ذات پات کا نظام ہندو معاشرہ کو چار بڑی ذاتوں میں تقسیم کرتا ہے

  • )الف( برہمن ۔ پڑھا لکھا مذہبی گروہ
  • )ب(کشتری۔ جنگجو اور حکمران گروہ
  • )ج(ویش۔ تجارتی اور کاشتکار لوگ
  • )د(شودر۔ سب سے کم تر ذات جس کا واحد کام برترذات والوں کی خدمت ہے

دلت اور اچھوتے جو بےذات ہیں اس لیے کہ وہ اصل چاروں ذاتوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ اچھوت اس لیے ہیں کہ ان کا کسی چیز کو چھونا اسے آلودہ کر دیتا ہے۔پس یہ دوسری ذات والوں سے ٹھیک ٹھاک فاصلے پر رہنے چاہیں۔ یہ گروہ ہندو معاشرہ کے انتہائی پیچیدہ نظام کا حصہ ہیں، جہاں یہ اٹھائی سو مخصوص 14 گروہوں کے سربراہ ہیں

ہر ایک ذات میں مشرق و مغرب کا سا فاصلہ ہے۔ روئے زمین پرعدم مساوات کی اس سے زیادہ غضب ناک مثال نہیں ملتی۔ جو

جس ذات میں پیدا ہوتا ہے وہیں مرتا ہے۔ صرف ھندوستان کا موجودہ سیاسی نظام اس ذات پات کے نظام کو رد کرتا ہے۔ذات پات کا یہ نظام ھندو تعلیمات میں مانو کے دور میں مال، یہ وہ وقت تھا جب برہمن تہذیب عروج پر تھی۔ اس وقت ہی سے یہ ھندو سماجی مذہبی نظام کا غیر مکسور جز بن گیا ۔ ذات پا ت کا نظام کم و بیش موروثی نظام بن چکا ہے ۔ جمہور کی حقوق کو اقلیت میں موجود حکمرانوں نے صرف اس لئے دبایا تاکہ اپنی برتری اور پاکی قائم رکھی جاسکے۔

گستیو لی بان نے مانو) ھندو تعلیمات، ویدھ ، کے نامور مصنفین میں سے ایک (کی بعض تعلیمات کا ذکر کیا:

اس ضابطے نے برہمنوں کو برتری ، فضیلت اور تقدس اس قدر دیا کہ ان کا مقام بڑھا کر خداؤں کے مقام کے برابر کردیا۔۔۔ جو کوئی بھی برہمن پیدا ہوا وہ اس دنیا میں سب سے مقدس مخلوق ہے۔ وہ تمام خلق کی گئی چیزوں کے سلطان ہیں اور ان کی ذمہ داری شاستروں کا دفاع ہے۔ اور ھندو تعلیمات ان کی اس طاقت کو قانونی جواز فراہم کرتی ہیں۔

دوسرے لوگوں کے حقوق کی قیمت پر مانو برہمنوں کو مزید 15 اختیارات سے نوازتا رہاہے

زمین پر جو کچھ ہے وہ سب برہمن کا ہے، اس لیے کہ وہ مخلوق میں سب سے فضیلت واال ہے۔ سب کچھ اس کے لیے ہے۔

جو کچھ بھی ہے شودروں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ۔ وہ 16 جانوروں سے بھی برتر ہیں

ایک شودر کبھی جائداد نہیں بنا سکتا۔ اگرچہ اس کے پاس کوئی موقع بھی ہو۔ پس اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ برہمنوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ شودر کے لیے اس بڑھ کر کچھ قابل عزت نہیں ہوسکتا کہ وہ برہمن کی خدمت کرے۔ اس کے عالہ کچھ بھی اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا ۔ شودر جس عضو سے برتر ذا ت کے آدمی کو نقصان پہنچائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ اسے اس عضو سے محروم 17 کر دیا جائیہ بے انتہاامتیازی نظام کوئی ماضی کی بات نہیں، بلکہ اس کے واضح اثرات سیاست میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ انتہائی مشکل ہوگا کہ ایسے غیر منصفانہ نظام کو مانا جائے ، قبول کیا جائے اور پھر طریقہ ہائے زندگی کے طور پر اپنایا جائے۔ اور انسانیت کے لیے عالمی نظام کے طور پر ذکر کیے جانے کے قابل ہی نہیں ہے

4-کیپیٹل ازم:

کیپیٹل ازم کوئی مذہب تو نہیں ہے مگر یہ الکھوں لوگوں کی زندگی گزارنے کا طریقہ بن چکا ہے۔جہاں وہ ایک چیز کو پانے کی بھرپور جستجو کرتے ہیں اور جب اسے حاصل کر لیتے ہیں تو پوری قوت سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ الکھوں لوگ امریکی کیپیٹل جیسے سٹیچو آف 19 ازم کے نام پر اب تک بے وقوف بن چکے ہیں۔ لبرٹی ہر نئے آنے والے کو خوشیوں اور امکانات کی سرزمین پر

خوش آمدید کہتا ہے ۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ غالمی کی تاریخ بھول گئے ہیں، دی پالنٹیشن یا بیک آف دی بسنظریہ ، جس کے تحت سیاہ فام شخص کو پبلک سواری میں اگلی سیٹوں پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔بعض کیپیٹلسٹس بے انتہا مال

و متاع کی طلب کے سنگین نتائج سے پریشان ہیں۔جیسے جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، زنا بالجبر، بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات، عورتوں پر تشدد، نشے کی عادات، مخفی اور ظاہر امتیازی رویے، بے گھری اور بوڑھے لوگوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹنا۔

غیر مساوی اور امتیازی رویہ کے نتیجے میں ایفرو امیریکن گروہ کو بہت سی بڑھتی ہوئی مشکاالت کا سامنا ہے۔ سفید رنگ امیریکیوں کو بھی مشکالت کا سامنا ہے مگر سیاہ فام لوگوں کی مصیبتیں پریشان کن ہیں۔

فلپسن )1992 )نے فلپس-سٹاک فنڈکے کلیدی تفتیشی کی جانب اشارہ کیا ہے ، تھامس جیسی جونز، ایک ویلش امریکی، جو سیاہ فام امریکیوں کی علیحدہ تعلیم کی پالیسی بنانے میں نہایت اہم تھے۔صدی کے آغاز ہی میں سیاہ فاموں کو مناسب تعلیم مہیا کرنے کا جو نظام بنایا گیا تھا وہ مکمل طور امتیازی بنیادوں پر تھا۔کیونکہ سیاہ فاموں کو کم تر ذات کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور انہیں کم درجہ کی تعلیم ہی کے قابل سمجھا جاتا تھا اور گھٹیا کاموں ہی کے لیے موزوں قرار دیا جاتا تھا اس لیے کہ وہ سفید نہیں تھے۔

سفید لوگ تو ہیں ہی رہنمائی کے لیے،کاکیشیائی ہی حکومت کریں گے ۔ جنوب والوں کے لیے نیگرو ایک مناسب موقع ہیں۔ وقت نے یہ بات ثابت کی ہے کہ جنوبی ریاستوں میں سخت مزدوری کرنے کے لیے یہ سب سے مناسب ہے۔ وہ سفید امریکیوں یا کسی بھی بیرونی نسل کے مقابلے میں چاہت کے ساتھ کم درجہ کی نوکریوں

کو بھی قبول کر لیتا ہے اور زیادہ سخت کام کرتا ہے اور کم اجرت لیتا ہے۔ )اس کا حوالہ برمن180:1982 اور بحوالہ فلپسن )1992:199 20

20 افریقن امریکنوں کی کل پیدائش کا انسٹھ فیصد بغیر شادی کے بندھن کے جنم لیتا ہے۔ دو تہائی بچے یا تو باپ کے بغیر رہتے ہیں یا ماں کے بغیر۔ اکثر اسطرح ہوتا ہے کہ ایک تہائی افریقی امریکی لڑکے سولہ سال کی عمر سے پہلے قید کی سزا سنا دئے جاتے ہیں یا جیل بھیجے جا چکے ہوتے ہیں۔ دس میں سے چار سیاہ مرد سولہ سے پینتیس سال تک کی عمر اپنی عمر جیل، حواالت یا پے رول پہ گزارتے ہیں۔ منشیات کا سب سے زیادہ استعمال کرنا، اسکول سے خارج ہونا اور زنا کی سب سے زیادہ شرح سیاہ فام لوگوں میں پائی بچنن نے اسی طرف اشارہ کیا ہے اور اقلیتوں سے 21 جاتی ہے۔ متعلق کچھ ایسے ہی اعداد و شمار پیش کیے ہیں مگر انتہائی روایتی انداز اپنایا ہے بجائے اس کے کہ ان حیران کن اعداد شمار کی اصل

بنیادی طور پر

وجوہات تک پہنچا جاتا۔ جن اقلیتوں نے ماضی میں غالمی اور شدید ظلم و بربریت کا سامنا کیا ہے آج وہ اداروں کی مخفی بربریت اور عدم توجہ کا شکار ہیں۔ مساوات اور انصاف کے لیے بس تھوڑی سی توجہ درکار ہے۔ بربریت اور ظلم کی تاریخ اور تاریک صدیوں کی تالفی کرنے کے لیے کوئی بھی کوشش نہیں کی جارہی سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کو قصوار قرارٹھہرایا جارہا ہے اور اقلیتوں پر الزام لگائے جارہے ہیں۔ عالقائی اعتبار سے انتہائی نامناسب اور ناکام نظام اس قابل نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا بھر کے پیچیدہ مسائل کو حل کر سکے۔

بنیادی طور پر کیپیٹل ازم معاشی عدم توازن کا نتیجہ ہے۔خاص طور پر اقلیتوں اور 'نان پروڈیوسنگ سیگمنٹس' کے لیے،جیسے بچے اور بوڑھے۔ امریکہ اور مغرب میں پچھلے ایک سو سال میں بڑی معاشرتی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی وجہ سے بہت سے نئے معاشرتی مسائل نے جنم لیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے خاندانی کھیت کھلیان اور خاندانی کاروبار پر کارپوریٹ غلبہ کے بعد معاشی معاشرتی استحکام عدم توازن کا شکار ہوا ہے۔اگر کسی کو کیپیٹل ازم سے فائدہ ہوا ہے تو معاشرہ کے چند افراد کو ہوا ہے باقی معاشرہ کا بڑا طبقہ جیسے بوڑھے ، متعلقہ ،بیوہ یا بے سہارا خواتین، سیاہ فام یا ایسے افراد جو بغیر کسی شادی کے بندھن کے جنم لیے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اس عدم استحکام کی زد میں آئے ہیں۔

امریکی شہروں کے اندرون میں سب سے زیادہ بے گھر افراد بوڑھے ہوتے ہیں۔ بہت سے ماہرین عمرانیات کے اندازے کے

مطابق بوڑے افراد کے بےگھر ہونے کا مسئلہ مستقبل قریب ہی میں پیدائش کے تناسب کا کم ہونا اور بوڑھے 22 نہایت سنگین ہوسکتا ہے۔ افراد کا بڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ ایسے رجحانات

مزید جاری رہیں گے۔ ایسا دیکھا جارہا ہے کہ بہت جلد بوڑھے آبادی کا ایک بڑا حصہ ہوں گے۔سن 1900 میں پینسٹھ سال سے اوپر کے اشخاص کا امریکی آبادی میں صرف چار فیصد تناسب تھا)یعنی تین ملین لوگ(۔ مگر سن 1976 میں یہ بڑھ کر کل آبادی کا دس فیصد ہوگیا )یعنی بائیس ملین(۔ اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ امریکہ

میں سن 2030 میں پینسٹھ سال سےزائد عمر کے افراد کل آبادی 23 میں پچاس ملین سے زائد ہونگے۔تقریبا کل آبادی کا سترہ فیصد۔ یہ امریکی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ کیپیٹلسٹ مسئلہ ہے۔ کیونکہ وہاں

انفرادی دولت ، بشمول افراد کے، ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ اقوام متحدہ کی کیپیٹلسٹ یورپ کی آبادی میں کمی کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں چار سو چورانوے ملین یورپیوں نے پندرہ سے پینسٹھ سال تک کی عمر پائی۔ جس کے بارے میں اندازہ کیا جارہا ہے کہ 2050 میں یہ بڑھ کر تین سو پینسٹھ ملین ہو جائے گی۔تاہم آج کے ایک سو سات ملین بوڑھے اسی عرصہ میں بڑھ کر اس وقت تک یورپ کی کل آبادی 24 ایک سو بہتر ملین ہو جائیں گے ۔ کا ایک تہائی پینسٹھ برس سے زائد عمر کا ہوگا۔

بوڑھوں، غریبوں اور سیاہ فام لوگوں سے نامناسب رویہ اور ان سے مخفی اور ظاہر امتیازی سلوک ہوتے ہوئے بھی ، مغربی اقوام یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کی تہذیب اور ان کا تمدن سب سے برتر ہے۔ اور وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اپنا طریقہ زندگی اور حکمرانی دیگر کم تر تہذیبوں پر مسلط کر سکیں۔نظریاتی طور پر کیپیٹل ازم معاشرے کے ہر طبقے کے ساتھ مساوات کا سلوک روا رکھنے کا خواہاں ہے مگر اس کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی مناسب الئحہ عمل نہیں دیتا۔یہ معاشرے میں ایک نئے طرز کا اقتصادی ذات پات کا نظام التا ہے جس کے نتائج میں عدم مساوات اور معاشرے میں تقسیم کی فضا قائم ہوتی ہے۔ جیسےمعاشرے کے افراد کو صحت اور تعلیم کی غیر مساوی ضروریات کی فراہمی۔ جہاں معاشرے کے مضبوط طبقات جیسے امیر، نوجوان اور سفیدلوگوں کے حقوق تو محفوظ رکھے جاتے ہیں مگر معاشرے کے کمزور طبقات جیسے عورتوں، بچوں،بوڑھوں کے حقوق کو یکسر نظر انداز کردیاجاتا ہے۔

یہاں کمیونزم اور مساوات کو ذکر کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کیونکہ کمیونزم کے ماننے والوں اور اس کے حامیوں کی بڑے تعداد نے خود ہی اس کا رد کیا ہے۔ کمیونزم کو اپنانے والی قوموں کے ہاتھ کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان کے حصے میں غربت اور بدحالی ہی آئی ہے۔ دراصل کیپیٹل ازم کی جڑیں ہی اس سازش میں ہیں کہ امیر ، امیر تر ہو جائے اور غریب، غریب تر ہوتا چال جائے۔ دنیا اب کسی کیپیٹلسٹ ملٹی نیشنل کمپنی کے ہاتھوں کسی اقتصادی تجربے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ کوئی ایسا عالمی نظام زندگی اپنایا جائے کہ انسانیت کے کھوئے ہوئے تقدس کو بحال کیا جاسکے اور تمام امتیازی رکاوٹوں کو ختم کیا جاسکے ۔ جو انسان کو دنیا کی سب سے معزز مخلوق تصور کرے ۔ ایک ایسا نظام زندگی جو انسانیت کو ایک عالمی طریقہ ہائے زندگی کی اس منزل تک پہچائے جسکا انسانیت خواب دیکھتی ہے۔

5 -اسالم اور عالمی مساوات:

اب کسی بھی نظام کا عالمگیر ہونے کا اگر دعوی ہے تو اس کو الزمی طور پر اپنے پیروکار وں کی قدر اور ان کی قابلیت کو رنگ، نسل ، عالقہ معاشی و معاشرتی پس منظر سے صرف نظر کرتے ہوئے قبول کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایسا ہی نظام لوگوں میں خوبیوں اور قابلیت کو ترویج دے گا نہ کہ کسی ایسی شے کی جو انہیں قدرت نے عطا کی ہے جیسے رنگ، نسل، ملک، عالقہ۔ اسالم کی نظر میں سب انسان برابر ہیں۔ اسی لیے ایسے قدرتی تفریقیں باعث

تعریف ہیں اور با مقصد ہیں۔ اسالم ایک ایسا دین ہے جس کی نظر میں تمام انسان خالق حقیقی کے سامنے برابر ہیں۔ "اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور اس میں بہت سی نشانیاں ہیں تمہارے رنگوں کا اختالف ہے یقیناً دانشمند لوگوں کے لیے

(30:22 القرآن)

آپصلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کاال کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ ی نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ٰ تمام لوگ آدم کی اوالد ہیں اور ہللا تعال 25 تھ

اسالم نے ہر قسم کی فوقیت اور برتری کو رد کیا ہے جو نسلی، عالقائی ،معاشی یا لسانی بنیادوں پر ہو۔ اگر برتری کا کوئی معیار ہے تو وہ اچھا اخالق اور پاکدامنی ہے۔ اس کے بارے ہللا تعالی کا ارشاد ہے:

لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیںاور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت ہللا کے نزدیکتم میں سب سے زیادہ عزت واال وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً ہللا سب کچھ جاننے واال اور باخبر ہے) (49:13 القرآن)

عرافات کے مقام پر آج سے چودہ سو سال سے زائد عرصہ پہلے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ایک الکھ سے زائد کے مجمع سےخطاب فرماتے ہوئے اسالم کے مساوات سے متعلقہ ابدی قوانین بیان فرمائے۔ اس لیے ہر سنے واال اسے آگے سنائے گا جو وہاں موجود نہیں تھا۔

اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے، تمام لوگ آدم کی اوالد ہیں ی نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ ۔ فضیلت صرف اور ٰ اور ہللا تعال ٰی کے سبب ہے۔کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت صرف تقو نہیں

اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کاال کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے؟ اے ہللا تو گواہ ہے۔ جو موجود ہیں وہ ان تک پیغام پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔نے ساروجنی نیدہ ایک 26 پروفیسر رام کرشناراؤ ایک ھندو پروفیسر بڑی ھندوستانی شاعرہ کا حوالہ دیا ہے ، جنہوں نے اسالمی مساوات کے عمل کو یوں بیان کیا ہے۔یہ پہال مذہب تھا جس نے ڈیموکریسی پر عمل کیا۔مسجد سے جب اذان کہی جاتی تھی تو تمام لوگ عبادت کے لیے اکھٹا ہوجاتے اور اسالمی مساوات کا عملی اظہار دن میں پانچ وقت یوں ہوتا کہ کسان اور بادشاہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے اور اس بات کا اعالن کرتے کہ صرف خدا ہی سب سے بڑا ہے۔ھندوستان کی عظیم شاعرہ مزید کہتی ہیں۔ میں اکثر اس نکتہ پر آ کر رک جاتی ہوں کہ اسالم کی مساوات ناقابل تقسیم ہے اور لوگوں کو جبلی طور پر بھائی بھائی بنا دیتی ہے۔جب آپ کسی مصری، الجزائری، ھندوستانی یا ترکی سے لندن میں ملیں گے تو جو فرق ان میں ہوگا وہ صرف آبائی عالقے کا ہوگا

مساوات اسالم کا ایک ایسا جزو ہے کہ جس کو کسی طور سےنظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اور نہ ہی یہ صرف کوئی نعرہ ہے۔ اس کا عملی اظہار ہر روز پانچ دفعہ یوں کیا جاتا ہے کہ تمام مسلمان ایک صف میں تمام فرق مٹا کر ہللا کہ بارگاہ میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اسالمی مساوات کی مثالی صورت حج کے دوران نظر آتی ہے جہاں تین ملین مسلمان ستر سے زائد ممالک سے ایک جگہ ایک لباس میں صرف ہللا کی رضا اور اس کی ثنا بیان کرنے کو اکھٹے ہوتے ہیں۔ رنگ، نسل ، زبان جیسی تمام تفریقیں کو مٹا دیا جاتا ہے۔کچھ نظام زندگی تو مذہبی تخصیص کو فروغ دیتے ہیں )جیسے یہودیت، عیسائیت، ھندوازم( اور بعض معاشیات کو فروغ دیتے ہیں،جس کے نتیجے میں معاشی عدم استحکام معاشرے کو تباہ کرتا ہے۔ )کیپیٹل ازم، کمیونزم، سوشل ازم(،صرف اسالم ہی ہے جو سب کو قبول کرتا ہے اور مساوی سلوک رکھتا ہے۔یہ بات ہمیں ایک نئی بحث کی طرف لے جاتی ہے۔ جس میں اسالم اور دیگر نظریات کے درمیان رواداری کے حوالے سے تقابلی جائزہ لیا جائے گا، جو کہ ورلڈ آرڈر کے لیے دوسری شرط ہوگی۔