عالمگیریت اور رواداری

ہماری دنیا کی سب سے منفرد چیز جو ہے وہ ہے عقائد اور تہذیبوں میں تغیر۔اس لیے کسی بھی نظام کا عالمگیر ہونے کا اگر دعوی ہے تو اس کے لیے اہم ہے کہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کو برداشت

کرے اور یہ ایک ایسی شرط ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کتاب کے اس حصہ میں مختلف مذاہب اور نظریات کے تاریخی شواہد کو دیکھا جائے گا اوران کے رواداری کے رویہ کو اسالم کے نظریہ رواداری کے ساتھ رکھ کر پرکھا جائے گا۔ یوں تو یہودی عدم برداشت کا تذکرہ پہلی فصل میں میں کرچکا ہوں اس لیے اب میں عیسائیت سے شروع کرتا ہوں۔جس کے بارے میں بعض کا مسیح علیہ السالم کی روادری کے بارےمیں دعوی ہے مگر جب

ہم تاریخ میں اس کا اطالق اٹھا کر دیکھتے ہیں تو نتائج یکسر مختلف نظر آتے ہیں ۔ اس سے باال تر کہ یہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات کا آغاز ہللا کے برگزیدہ اور حلیم پیغمبروں کے ہاتھوں پر ہوا مگر

وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزوں کا ان کی اصل تعلیمات کے ساتھ اٖضافہ کردیا گیا جو کبھی ان کا حصہ تھیں ہی نہیں۔

1 -صلیبیوں کا فلسطین میں رویہ:

آئیے صلیبیوں کے اس طرز عمل پر نظر دوڑاتے ہیں جو انہوں نے فتح یروشلم اورمسلمانوں کے خالف علم جنگ بلند کر کے اپنایا ۔ ان جنگوں کو مقدس جنگیں تصور کیا جاتا تھا جو پوپ کی برکتیں حاصل کر کے عیسائیت کے جھنڈے تلے لڑی جاتی تھیں ۔

یروشلم کا ایک مہینہ تک محاصرہ کیا گیا ۔ یروشلم میں رہنے والوں نے بہت بہادری سے انکا مقابلہ کیا مگر جب صلیبیوں کو فتح ہوئی تو وہ گلیوں میں داخل ہوئے اور جو چیز ان کو نظر آئی اسے قتل

کردیا، تباہ کردیا یا جالدیا۔ انہوں نے مردوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم کرنے میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔یہ قتل عام ساری رات جاری رہا۔ جمعہ، 15 جون 1099،صلیبیوں نے مسجد االقصی کا دروازہ توڑ دیا اور وہاں پناہ لینے والے سب لوگوں کوقتل کردیا۔ ابن کثیر نے اپنی کتاب الکامل میں قتل عام کا تذکرہ یوں کیا ہے۔

صلیبیوں نے ستر ہزار سے زائد لوگوں کو قتل کیا۔ ان میں سے بعض علماء، فاضلین اور وہ دانا حضرات تھے جو اپنے اپنے

عالقوں کو چھوڑکر اس مقدس مقام میں رہنے کو یہاں شریف الئے تھے۔ صلیبیوں نے مقدس مقامات سے چاندی کے چالیس کے قریب قیمتی فانوس چورائے ، اس ایک کی قیمت چھتیس سو چاندی کے درھم تھی۔

اپنی کتاب ، دی عرب سویالئزیشن میں ، فرانسیسی گستیو لی بان نے صلیبیوں کا یروشلم میں داخل ہونا یوں بیان کیا ہے۔

صلیبیوں کا یروشلم میں داخل ہونے کا طریقہ متحمل خلیفہ عمر ابن الخطاب سے بہت مختلف تھا کہ جب وہ عیسائیوں پر اسی شہر میں 28 کچھ صدیاں پہلے داخل ہوئے تھے

بلول شہر کے پادری، ریمنڈ ڈیگائل نے تاریخ میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔

جب ہمارے لوگوں )عیسائیوں ( نے یروشلہم کے درو دیوار کو فتح کیا تو عرب کے ساتھ جو ہوا وہ پریشان کن ہے۔ بعض مسلمانوں کے سر کاٹ دے گئے اور بعضوں کو شدید زخمی کیا گیا تاکہ وہ اپنے آپ کو دیواروں سے نیچے لے آئیں، کچھ کو زندہ جال دیا گیا۔ اس روز یروشلم کی ہر سڑک پر مسلمانوں کے کٹے سر، ٹانگیں اور ہاتھ تھے یہاں تک کہ اس روز الشوں پہ نہ چلنا محال تھا۔ یہ صرف 29 ایک نمونہ ہے کہ اس روز کیا ہوا تھا

خلیل توطہ اور بولوس شہادہ )دونوں عیسائی لکھاری ہیں(نے اس قتل عام پر یوں لکھا ہے

صلیبیوں نے اس جگہ جہاں یسوع کو مصلوب کیا گیا اور دفنایا گیا ، جو ظلم کیا وہ شرم ناک ہے اور گناہ ہے۔یسوع نے تو سیکھایا تھا کہ اپنے دشمنوں سے محبت کرو۔ صلیبیوں نے کہ جن کے پیش نظر مقدس صلیب تھی انہوں نے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو قتل

کیا۔یہاں تک کہ جو لوگ اقصی کی طرف چلے گئے تھے تو گوڈ فرے نے ان کا پیچھا کیا ۔ گوڈفرے تو مقدس ٹومب )مقبرہ( کا محافظ تھا۔ اور جب وہ جاوا میں مصریوں سے برسرپیکار تھا تو اس نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ اسے واپس یروشلم لے جایا جائے جہاں بعد میں اس کا انتقال ہوگیا۔ وہ نیٹیوٹی چرچ میں دفن کیا گیا

بدقسمتی سے صلیبی جنگیں ماضی بعید کی باتیں نہیں ہیں جیساکہ کوئی شخص مغالطہ کا شکار ہوسکتا ہے۔ یہ آج بااثر عیسائیوں کے ذریعے جاری ہیں ۔ یہودیوں اور مسلمانوں کی ان خونریزجنگوں سے وابستہ نہایت تلخ یادیں ہیں۔ ماضی میں اور دور حاضر میں

مشنریوں کا لوگوں کو بہکا کر عیسائی کرنا بھی صلیبی جنگ سمجھا جاتا ہے۔سیاسی رہنما دوسری قوموں سے اپنے دہرے رویے کو بھی صلیبی جنگ سمجھتے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں یہ کہ عیسائیوں کا دوسروں کو برداشت کرنا ان کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ یہ ناانصافی ہوگی کہ اگر انبیاء )علیھم السالم( کی اصل تعلیمات کا انکار کر دیا جائے۔ انہوں نے تو برداشت اور رواداری سیکھائی بھی اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ وہ ہدایت اور رہنمائی الئے تھے۔ تاہم ان کی تعلیما ت میں سنگین رد و بدل کے نتیجہ میں صلیبی جنگیں، غالمی ، نسلی و لسانی امتیاز، نو آبادکاری اور دوسرے لوگوں کے ساتھ منافقانہ طرز اپنانے جیسے کام ہوئے۔

2-فلسطین میں یہودی اور عیسائی، مسلمان دور حکومت میں:

صلیبیوں کی فلسطین میں تاریک تاریخ کے برعکس مسلمانوں نے رواداری اور برداشت کی جو عالمی مثال پیش کی تھی دنیا کی کوئی بھی قوم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ابوعبیدہ، مسلمان سپہ ساالر نے خیلفہ ثانی کے لیے پیغام بھیجا کہ یروشلم کے لوگ

چاہتے ہیں کہ آپ وہاں تشریف الئیں اور شہر کی چابیاں وصول کریں۔ پھر خلیفہ نے اپنے ایک مالزم کے ہمراہ سفر شروع کیا ۔ ایلیا)یروشلم ( کے شہریوں نے آپ کی آمد پر آپ کا استقبال کیا ۔ پھر انہوں نے مشہور امن معاہدہ کیا ، جو کچھ یوں تھا:

ہللا کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان نہایت رحم واال ہے۔اس معاہدے کے ذریعے سے ہللا کا بندہ، عمر اور امیر المومنین، ایلیٍا کے رہنے والوں کو ان کے مال، جائداد اور عبادت خانوں کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ ان کے چرچ تباہ نہیں کیے جائیں گے۔

ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچایا جائے گا اور نہ ہی ان پر ان کی مرضی کے خالف مذہب تبدیل کرنے پر کوئی جبر کیا جائے گا۔ ہللا اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی نگرانی میں ،یہ ضمانت خلیفہ اور تمام مسلمانوں کی طرف سے ہے ۔ تب تک کہ دوسری طرف سے معاہدے کی پابندی رہے اور وہ جزیہ دیتے رہیں۔ فی الحقیقت یہ عمر ہی تھے جنہوں نے پہلی بار رومیوں کے غلبہ سے یروشلم کو آزاد کروایا تھا۔

3 -سپین میں اسالم:

ساتویں صدی میں سپین کے لوگوں کو کھلی آزادی دی گئی کہ وہ چاہیں تو اسالم قبول کر لیں جیسے آج ہزاروں الکھوں لوگ اسالم قبول کر رہے ہیں۔ تاہم پوپ کے ایما پر 1479 میں پرنس فرڈینانڈ اور پرنس عیسی بیال نے ناقابل یقین حد تک سپین کی خونی تاریخ کی تحقیقات شروع کر دیی۔ اس وقت ناقابل بیان ظلم اور قتل عام مسلمانوں اور یہودیوں پر کیا گیا تھا ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ عیسائیت قبول کرو یا موت۔گراناڈا کی تباہی کے بعد مسلمانوں کا سپین میں آخری مضبوط مقام بھی کھو گیا اور مسلمان اس الوارث جھنڈ کی طرح ہوگئے جس پر ہر طرف سے بھوکے بھیڑیوں نے حملہ کردیا ہو۔ ان کا قتل عام ہوا، غالم بنائے گئے یا تلوار کی نوک پر عیسائیت قبول کرنے کے لیے مجبور کیے گئے۔

پنے مضمون "ون دا مورز رولڈ سپین" Moors the When( (Spain Ruled میں تھامس جے۔ ایبرکروبی نے مسلمانوں کے مغرب میں کام سے متعلق بہت سے حقائق واضح کیے ۔ اس نے مسلمان دور حکومت کی خوبصورتی کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جہاں یہودی ، عیسائی اور مسلمان اکھٹے پر امن طور سے سات

صدیوں سے رہ رہے تھے۔پھر یک دم اس نے کیتھولک عیسائیوں کی بربریت کامختصر تذکرہ یوں کیا:یہی وہ جگہ ہے جہاں الفونسو ششم کے کافی عرصہ بعد بڑھتے ہوئے عیسائی تعصب کا نشانہ بننے والےتباہ ہوئے۔ 1469 میں پرنس فرڈینانڈ اور پرنسز عیسی بیال نے بیاہ کیا ۔ اور ساتھ ہی جنوب کی طرف کے مورز کے ساتھ جنگ شروع کردی۔ انہیں مسلمان اور یہودیوں سے اپنی سرزمین میں خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔ اس سے پہلے یہ سلسہ تھمتا اس سے تین صدیا ں بعدہزاروں مسلمانوں اور یہودیوں کو قتل کردیا گیا ۔ ایک اندازہ کے مطابق تین ملین لوگوں کو جال وطن کر دیا گیا۔ جس میں کاروباری شخصیات، فنکار، کاشت کار اور سائنسدان تھے جس کا نتیجہ بعد میں سپین نے خود ہی 31 برداشت کیا

رونگ )1973 )میں اپنی کتاب دی فالکن آف سپین میں عیسائیوں اور یہودیوں کا مسلمان دور حکومت میں حال یوں بیان کیا ہے۔

نئے حکمرانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی امن کے ساتھ رہے۔یہودی تجارت اور صنعت کاری کی وجہ سے امیر تھے اور اب تیار تھے کہ اس ظلم کو جوپوپ کے تیار کردہ لوگوں نے ان پر ڈھائے تھے ، انہیں بھول جائیں۔مورز )ہسپانوی مسلمانوں( نے انہیں عزت کا مقام دیا اور اب وہ پڑھے لکھے، سائنس اور فن کو جاننے 32 والے، مہذب اور روادار لوگ بن گئے تھے

اسی رواداری کی وجہ سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان اچھے تعلقات بنے۔مسلمانوں نے عیسائیوں کو آزاد رکھا کہ وہ اپنے فیصلے خود کر لیں۔گبن)1823 )نے اس بات پر زور دیا ہےکہ سپین کی مسلمانوں نے اسالمی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے عیسائیوں اور یہودیوں پر کوئی ظلم نہیں کیا۔بلکہ ایسی رواداری سے ان کے ساتھ رہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔

امن اور انصاف کے دور میں عیسائیوں کو کبھی اس بات پر مجبور 33 نہیں کیا گیا کہ وہ انجیل کو چھوڑ کر قرآن کو اپنا لیں

لیا، ایک عظیم تاریخ دان، اپنی کتاب "دی مورسکوس آف سپین " (Spain of Moriscos The(میں پوپ کی تقریر کی نشاندہی کی ہے جو پوپ کلیمنٹ ہفتم نے 1524 میں میں کی تھی۔

پوپ کو یہ پڑھ کر صدمہ ہوا ہے کہ ویلینسیا ، کیٹالونیا اور آرگون میں چارلس کے بہت سے مد مقابل مورز )مسلمز( ہیں ۔ کہ جن کے ساتھ کوئی ایمان واال )مسیحی ایمان واال( خطرے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنے آقاؤں کے ساتھ رہتے ہیں جو ان کو مسلمان کرنے میں زیادہ وقت ہی نہیں لگاتے ۔یہ سب مسیحی ایمان کے لیے مناسب نہیں اور یہ بادشاہ کی شان کے خالف بھی ہے۔ اس کے عالوہ وہ افریقیوں کے لیے جن کو وہ مسیحیوں کی ساخت کے بارے معلومات دیتے ہیں ، کے لیے جاسوسی بھی کرتے ہیں۔ اس سب کے تناظر میں چارلس کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ عدالتی تفتیش کنندگان ان تک کالم خدا پہنچائیں۔ اور اگر وہ اپنی ضد پر قائم رہیں تو تفتیش کار ان کے ساتھ کوئی شرط طے کریں کہ جس کی خالف ورزی پر انہیں ہمشہ کے لیے غالم بنا لیا جائے گا اور بھیانک موت دی جائے گی۔ اور ان کی معبد خانوں کی کل جائداد کا دسواں حصہ ان سے وصول کیا جائے جو وہ اب تک نہیں دیتے تھے۔کلیسا کی ضرورتوں کو خداوند خود پوارا کرے گا لیکن مسجدوں کی کمائی کو وقف کیا جائے گا۔ اس دستاویز کے اختتام پر ہم باقاعدہ چارلز کو اس عہد سے آزاد کرتے ہیں کہ جس کے تحت مورز کو جالوطن نہیں کیا 34 جاسکتا تھا

اعلی سطح کی کیتھولک اتھارٹی کے ایسے مشورے نے سپین کے مسلمانوں پر غالمی اور عدم رواداری کی ناقبل بیان مثال رقم کی ہے۔

مسلمانوں کی اپنی پسند ہے کہ چاہے تو وہ عیسائیت قبول کریں یا موت۔ مینیسس کے گاؤں نے جب ہتھیار ڈالے تو ان کو بیس بیس اور پچیس پچیس کے گروہ میں کلیسا لے جا کر بپتسمہ دیا گیا تاہم یہ واضح ہوگیا کہ وہ مذہب کی تبدیلی کے لیے رضامندی کا لحاظ نہیں 35 رکھتے

جنہوں نے اس مذہب کی زور زبردستی کی تبدیلی کو قبول نہیں کیا انہوں نے بھیانک نتائج دیکھے۔

وہ سب ایک قریبی قلعہ میں اکھٹے کیے گئے اور قتل کردئے 36 گئے

یہ بات غیر مناسب ہوگی اگر یہ کہا جائے کہ آج کے سب عیسائی اس فعل کو قبول کرتے ہیں۔تاہم اس وقت کی اعلی سطح کی عیسائی اتھارٹیز نے ان امور کی کھلم کھال حمایت کی تھی۔ آج کی عیسائی دنیا ان امور کے مخلصانہ رد سے کتراتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس کی ذمہ داری قبول کریں اور عمومی معافی مانگیں اور مسلمانوں اور اسالم سے متعلق غلط معلومات پھیالنے سے بعض آئیں۔

4 -کلونائزیشن کے دور میں عیسائیت:

کلیسا کے بہت سے رہنماؤں نے یہ بات ظاہر کی ہے کہ غیر مسیحی لوگوں کو اچھی زندگی جینے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی

وہ اپنی مرضی کے مذہب کی پیروی کرسکتے ہیں۔ ایسے مفروضے بہتوں کے دماغ میں گھر کرچکے ہیں۔ اس سوچ کا واضح اظہار بشپ ونچسٹر ٹو ھنری دوم نے اپنی رائے میں کھل کر کیاہے۔

ان کتوں )مونگلز اور مسلمز(کو آپس ہی میں لڑ کر مکمل طور پر ختم ہونے دو۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ عالمی کیتھولک چرچ کی بنیاد ان کے باقیات پر ہوگی اور پھر صر ف ایک ہی ریوڑ ہو گا اور ایک 37 ہی چرواہا

یہ اس تیروہیں صدی کے کسی ایک پادری کا ہی نکتہ نظر نہیں بلکہ اوینجلسٹ عیسائیوں کی ایک نمایاں شخصیت زومر جو اوینجلسٹ عیسائیوں میں تقریبا ایک نبی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ، کہتا ہے:

ہمیں افریقہ، یورپ اور ایشیا میں مسلمانوں کی کم ہوتی سیاسی قوت کو اور کم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہم تاہم یہ مانتے ہیں کہ کرسنٹ زوال پزیر ہوگا اور تب صلیب اپنی عظمت ظاہر کرے گی۔ مسلمان عالقوں میں اوینجلزم کے فروغ کے لئے اسالم کا ٹکرے 38 ٹکرے ہونا ایک الہی عمل ہ

کوئی عیسائی اپالوجسٹ یہ کہ سکتا ہے کہ یہ فرد واحد کی رائے ہےصف اول اویجلسٹ بھی نہیں تھے۔ مگر زیومر حقیقت اور وہ کوئی

میں ان میں سے ایک نمایا شخصیت ہے ۔جس نے مسلمانوں کو عیسائی کرنے کے پورے پالن کو مرتب کیا۔ کلوراڈو 1978 کی کانفرنس میں سینکڑوں وفود نے اس بات کی تجویز دی کہ زیومر کے نام سے آلٹانڈا اور کیلیفورنیا میں ادارے قائم کیے جائیں جن کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے ایمان پر ضرب لگانا ہو۔مسلمان لوگوں کو دعوت دے سکتے ہیں فطرتی دین کی طرف، خدائے قادرومطلق کی، اوراس کائنات میں جو کچھ ہے اس کے خالق کی طرف، تمام انبیاءلیہ السالم پر ایمان النے کی طرف۔ پر بشمول حضرت عیس ٰ جبکہ عیسائی مشنریز انسانیت کی خدمت کے جھنڈے تلے ضرورت مند، بیمار اور الچار لوگوں کے دل جیتنے کے لیے تمام ہربے اپناتی ہیں۔ مشنریز میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے بارے میں غلط معلومات پھیالتے ہیں اور اسالم کے خالف پراپوگینڈہ کرتے رہتے نے ذکر کیا ہے:

بعض دفعہ ہمیں اس الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمانوں میں سے عیسائی کرنے کے لیے مادی، تعلیمی اور صحت سے متعلقہ 40 اپنے ذرائع استعمال کرتے ہیں

5 -یورپ میں اسالم:

ویسٹرن ورلڈ آرڈر کی بنیادوں اور اقدار کے بارے میں ادراک حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہنٹنگٹن کے امور خارجہ میں دے گئے بیان پر غور کرنا پڑے گا جو اس نے، مسلمانوں کے اس الزام کہ ویسٹرن ورلڈ آرڈر متعصب اور دوگال ہے ،کے متعلق دیا تھا۔

تہذیبوں کہ اس تصادم میں کوئی تردد نہیں کہ یہ دنیا دوگلی ہے۔ اپنوں اور اتحادیوں کے لیے معیار اور رکھا جاتا ہے اور دوسروں 41 کے لیے اور

اسی دوگلی پالیسی کا اطالق مغربی دنیا نے بوسنیا، چیچنیا،فلسطین، آزر بائی جان اور دنیا کے دیگر مقامات پر کیا ہے۔ ہر غیر عیسائی معاشرے پریہ رویہ مغرب کی غیر جانبداری ثابت کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ویٹیکن کی سربراہی اور بوسنیا پر مسلط کیتھولک

ملک،کروشیا، کی پشت پناہی پوپ خود کر رہے تھے ۔ چنانچہ ہنٹنگٹمن کے مطابق یوں ویٹیکن نے اپنی پہچان یورپی کمیونٹی میں 42 کروائی

ہزاروں سینکڑوں لوگوں پر ظلم و جبر ہوا، نسل کشی کی گئی اور زنا بالجبر کے ایسے گھنونے واقعات سامنے آئے جن کی مثال نہیں ملتی۔اور اس سب معامالت کو ان ممالک کی طرف سے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی جو آج نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ لگاتی ہیں۔

امن پسند اور محبت کرنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ایک ایسا سانحہ اور شرم ناک حقیقت ہے جو معصوم لوگوں کے خون سے لکھی گئی تاریخی یاداشت ہے ۔ خاص طور پر اس بات کے مقابلے

میں کہ اسالمی تعلیمات ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ کوئی اپنے دشمن کے ساتھ ناانصافی کا رویہ روا رکھے۔ اسالم اس سب بربیت سے مبراء ہے جو شاید کوئی مسلمان جہالت کی بنیاد پر اسالم کے نام پر کررہا ہو۔

6-برصغیر میں اسالم:

اسالم سب سے پہلے ساتویں صدی میں برصغیر میں داخل ہوا۔ اور مسلمانوں کا غلبہ ہندوستان اور نواہی ملکوں میں تقریبا 1100 سال تک رہا ۔یہاں تک کہ 1857 میں برطانوی یہاں قابض ہوئے۔ اگر عیسائی طریقہ اختیار کیا جاتا اور عیسائی طریقہ کے مطابق بندوق کی نوک پر مذہب تبدیل کروائے جاتے تو برطانویوں کے آنے پر یہاں ایک بھی ہندو باقی نہ رہتا۔ تاہم اسالمی رواداری اور لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی روش یہاں ہندوستان میں ظاہر رہی ۔ قرآن میں رواداری و برداشت کو بنیادی اصول کے طور پر پیش کیا گیا ہے جسے پر سب کو عمل پیرا ہونے کی ھدایت ہے۔

ناصرف ھندوستان میں بلکہ دنیا کے دیگر عالقوں میں اسالم آیا اور انسانیت کو رنگ، نسل ، زبان کے امتیاز سے باہر نکاال اور

ناانصافی اور تواہمات سے آزاد کیا۔ اس لئے خداکے سچے مذہب کو قبول کروانے کے لیے زبردستی کرنی ہی نہیں پڑی۔ درحقیقت یہ لوگوں کہ اس فہم پر منحصر ہے جو ان کو ان کے رب نے عطا کیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور حق کو پہچانیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسےہی اسالم کی سچائی واضح ہوتی ہے تو ہزاروں الکھوں لوگ دائرہ اسالم میں داخل ہوتے ہیں۔ لوگ اسالم اپنی مرضی اور منشاء سے قبول کرتے ہیں ، ان پر کسی قسم کا جبر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان میں بہت سے سائنسدان ہوتے ہیں، سیاستدان، وکیل، مشنری،مشہور شخصیات جیسے کیٹ سٹیون )موجودہ یوسف اسالم(، مشہور پاپ سنگر، ایم ہوف مین، موروکو میں جرمن کے سفیر، جنہوں نے حال ہی میں ایک چشم کشا کتا ب لکھی ہے جس کا عنوان

ہے اسالم از دی آلٹرنیٹو،,Alternative the is Islam ،موریس بوکائل، ایک مشہور فرانسیسی سائنسدان جنہوں نے مذہب اور سائنس میں طویل تحقیق کے بعد اسالم قبول کیا، جو ان کی کتاب میں مخلص عرب سعودی، The Bible, The Quran and Science ،ہ

7-اسالم میں رواداری:

اسالم کا مطلب ہے ہللا کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری۔ اس کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے لیے زور زبردستی کرنا جائز نہیں بلکہ مرضی اور میالن قلب ہونا ضروری ہے۔ اسالم سب لوگوں کو بھائی بھائی کے طور پر قبول کرتا ہے چاہے کوئی شخص زندگی کے کسی شعبے سے تعلق رکھتا ہو یا کسی بھی رنگ و نسل کا ہو۔ اسالم فقط دوسرے مذاہب کے لوگوں کے عقائد کے لئے برداشت اور رواداری کا حکم ہی نہیں کرتا بلکہ اس کو ایک اہم دینی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔

"دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضاللت سے روشن ہوچکی ہے، ی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار ٰ اس لئے جو شخص ہللا تعال کرکے ی پر ایمان ہللا تعال لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی ٰ نہ ٹوٹے گااور ہللا تعال لا، جاننے والا ہے

(2:256 القرآن)

درحقیقت صرف اسالمی تاریخ میں ہی لوگوں کو ان کے مذہبی حقوق دئے گئے ہیں۔ اور رواداری کی بلند ترین سطح پر جا کر ان کو ان کے مذہبی طریقہ کار کی پیروی کی اجازت بھی دی گئ۔ یہ رواداری کی عملی مثال ہے جو مسلمانوں نے اپنے غیرمسلم شہریوں کے ساتھ روا رکھی تھی۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کسی قانوں میں لکھا نہیں پایا جاتا اور نہ ہی کسی حکومت یا عدالت کی طرف سے الگو کیا جاتا ہے۔ وہ ہے رواداری کی اصل روح ، جو اچھے رویوں اور شفیق سلوک،ہمسائے کے لیے عزت اور احترام ،رحم ، وفا اور ہمدردی جیسے تمام جذبات میں عیاں ہے۔ ان سب جذبات کا عملی اظہار ہر مسلمان سے مطلوب ہے جو کسی قانونی یا عدالتی دباؤ سے ممکن نہیں۔ رواداری کی اصل شکل اگر کہیں نظر آتی ہے تو صرف اسالم میں اور اگر کہیں اس کا عملی اظہار کیا گیا ہے تو وہ ہے 44 خالص اسالمی معاشرہ

بہت سی قرآنی آیات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ غیر مسلمانوں کے ساتھ جب کوئی معامالت کیے جائیں تو وہ عدل و انصاف اور عزت

  • و توقیر پر مبنی ہوں ۔ خصوصا ان غیر مسلموں کے ساتھ جو مسلمان معاشرے میں امن سے رہتے ہیں اور نفرت نہیں پھیالتے ۔ "جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جالوطننہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤکرنے سے ہللا تعالی تو انصاف کرنے والوں سے محبت ٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ ہللا تعال ککرتا ہے" (60:8 القرآن)
  • ی کی محبت میں کھانا کھالتے ہیں مسکین، یتیم اور ٰ "اور ہللا تعال قیدیوں ی کی رضامندی کے لیے کھ کوہم توتمہیں صرف ہللا تعال التے ہیں ٰ نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری" (76:8,9 القرآن)
  • یہ عین ممکن ہے کہ مسلمانوں کا بہت سے مذہبی عقائد یا نظریاتی نظاموں سے اختالف ہو مگر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اچھے اخالق اور باوقار انداز میں اختالف رائے کریں۔ "اوراہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعالن کر دو کہہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے اور جو ہم پر اتاری گئی ہے اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی، ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں (29:46 القرآن)
  • اس پس منظر میں ایک سوال اٹھا یا جانا مناسب ہےکیا دیگر مذاہب کے لیے رواداری اور برداشت رکھنا کوئی ایسی صوابدید کی بات ہے جو مسلمانوں پر چھوڑی گئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ رواداری کی قرآن اور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات میں بنیادی اور نظریاتی اساس ہےجو کسی فرد یا ادارے کی مداخلت سے مشروط نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اسالم کا ایک مستقل قانون ہے جو وقت اور حاالت دیکھ کر بدلتا نہیں ہے۔ قرآن مجید کے مطابق ہر انسان قابل قدر ہے، ہللا نے سب کو عزت سے نوازا ہے۔ہم نے او "یقینا لاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری ً کسواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائ (17:70 القرآن)
  • اسالم ہللا سبحانہ و تعالی کا نازل کردہ آخر ی مذہب ہے اور یہ مذہب انسانیت کے لیے ایک عالمگیر سچائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے عقائد و نظریات کسی بھی للکار کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسی لیے مذاہب کی کثیر تعداد میں عقل و فہم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا انسان پر چھوڑا گیا ہے۔ اس طرح کے اصول کی وضاحت قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے: ی، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہللا ٰ "ہللا تعال کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیںکے نزدیک دین اسالم ہی ہے، اور اہل کتاب نے ٰ بے شک ہللا تعال اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی ی اختالف کیا ہے اور ہللا تعال کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے ٰ ی اس کا جلد حساب لینے وا ہللا تعال لا ہے (3:18,19 القرآن)
  • "اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرسکتے ہیںیہاں تک کہ وہ مومن ہی ہوجائیں (10:99 القرآن)

اسالم میں ناانصافی کو ایک بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں پر ان کے مختلف مذہب ہونے کی بنیاد پر ہر قسم کے ظلم کی مذمت کی گئی ہے اور وہ ہرگز قابل قبول نہیں۔ حضرت محمدصلى الله عليه وسلم نے فرمایا:مظلوم کی دعا ، چاہے وہ کافر ہی ہو، ہللا پاک بغیر کسی پردے کے سنتے ہیں۔

8 -اختتامی تبصرہ:

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ، کہ عدم برداشت ان مذاہب، ھندو مت، عیسائیت اور یہودیت کے نمائندگان کامستقل شیوہ رہا ہے۔ اور بعض

دفعہ ان کی کتابوں میں اس کی تعلیم تک دی گئی ہے۔ یا تو یہ اس کے ذریعہ سے انسانیت کے ایک حصہ کو مرحوم کر دیتے ہیں یا اس کو ان پر ظلم اور جبر کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قبول کرو یا مرو ، یہی دو باتیں عیسائی یا ھندو غیر عیسائی یا غیر ھندوکے سامنے رکھتے تھے ۔ مگر اسالم کہ ادوار حکومت میں لوگوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی ہوتی تھی ۔ جیسا کہ سپین میں یہودیوں کو امن حاصل تھا۔

لوگوں کی مجبوریوں اور الچاری سے فائدہ اٹھا کر ان کے نظریات تبدیل کروائے جاتے تھے۔ سٹیفن نیل نے اس غیر انسانی رویہ کے مستقبل کو یوں بیان کیا ہے:

مشنری لیوگری جب الجیریا میں آئے تو آمد کے کچھ عرصہ بعدہی ہیضے کی وبا پھیل گئی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قحط پڑ گیا۔ اور اس کو موقع مال کہ1800 یتیموں کو اکھٹا کرے اور وہ فرانسسی عہدہداروں سے اجازت پاتے ہی ان کو عیسائیت میں داخل کرے۔اور ان کو عیسائی تعلیمات سکھالئے اور ان کو عیسائی عالقوں میں پناہ دے سکے۔ اس طرح کے امور سے دوسرے ممالک میں مشنریوں کا حوصلہ بھی بڑھا اور انہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔وہ بچوں کو بطور غالم خریدنے لگے اور ان کو عیسائی جھتوں میں شامل کرنے لگے

نیل نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے حقائق سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ کتنے مجبوروں کے جسم اور ایمان خریدے گئے۔وہ کہتے ہیں کہ:

بچوں کی خرید و فروخت کا یہ سلسہ اس حد تک جاری رہا کہ ایک مشنری ایک مخصوص عالقے میں سن 1902 تک 250 ایسے 47 فارمز قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا جہاں 5000 غالم بچے تھے

سیگریڈ ہنکی ایک عظیم جرمن فلسفی اور مورخ نے اپنی کتا ب ganz ist Allahمیں اولیورز کے ایک خط کی طرف اشارہ کیا ہے۔ )اولیورز ایک الہایاتی فلسفی تھا جس نے 1221 میں سالہدین کو ایک خط لکھا جس میں اس نے صلیبیوں کی گرفتاری کے بعد ان سے روا رکھے جانے والے حسن سلوک کی تعریف کی(۔

صدیوں سےظالم دشمن کے لیے رحم اور حسن سلوک کی ایسی مثال کسی نے نہیں دیکھی۔ جب خدا نے چاہا ہم تمھارے قدموں میں گر گئے اور تمہیں ظالم جابر نہیں پایا۔بجائے اس کہ ہم تمہیں شفیق باپ کے طور پر دیکھتے ہیں کہ جو اپنی رحمت اور شفقت ہم پر ہمارے برے وقت میں کر رہا ہے۔ اور اس میں کون شک کر سکتاہے کہ یہ رحمت اور شفقت ہللا کی طرف سے نہیں ہے۔ وہ لوگ جن کے ہم نے والدین ، بیٹوں ، بیٹیوں،بھائیوں اور بہنوں کو مارا اور بدترین تشدد کیا۔ لیکن جب ہم ان کے قیدی بنے تو انہوں نے ہر ممکن حد تک ہم سے اچھا رویہ رکھا اور ہمیں بھوک سے بچایا اور ہمیں 48 اپنے آپ پر تب ترجیح دی جب ہم الچار و بے بس تھ

ہنکی مزید واقعات بیان کرتی ہے ۔ بربریت کے ان واقعات کا ذکر جو صلیبیوں نے فلسطینی مسلم شہریوں پر ظلم و جبر کرتے ہوئے رقم کیے، جن کا تصور محال ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ کینگ ریچرڈ ، دی الئن ہارٹ ، کا ہے کے جس نے اپنے تاج کی تضحیک اس وقت کی جب اس نے ایک معاہدے کی خالف ورزی کرتے ہوئے تین ہزار

قیدی مسلمانوں کو ذبح کروا دیا۔ فرانسسی بادشاہ نے بھی ایسا ہی کیا 49 تھ

مندرجہ ذیل میں نامور امریکی دانشور ، پروفیسر ایل ایسپوزٹو ، کے آرٹیکل کا کچھ حصہ دیا جارہا ہے جس میں انہوں نے اسالم اور مسلمانوں کی رواداری کا خالصہ بیا ن کیا ہے۔

عیسائی اور یہودیوں کے ساتھ اہل کتاب کی طرح برتاؤ کیا گیا۔ریاست سے وفاداری اور ٹیکس دینے والے ذمی لوگ اپنے مذہب کی پیروی کر سکتے تھے اور ان کے معامالت ان کے مذہبی رہنما ہی دیکھتے تھے اور انہی کے مذہبی قانون کو ان کے معامال ت اور 50 نجی زندگی کے مسائل میں سامنے رکھا جاتا تھا

پرنس چارلز نے آکسفورڈ سنٹر فار اسالمک سٹڈیز میں بڑی بے باکی سے اسالم اور مغرب کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہ

قرون وسطی میں اسالم کی رواداری نمایا تھی۔ جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنے عقائد کی پیروی کرنے کی اجازت تھی۔انہوں نے ایک ایسی مثال قائم کی تھی کہ جس کو آج مغر ب اپنانے میں ناکام

ہے۔ 51 اسالم نے عیسائیوں اور یہودیوں کو سامراجی عیسائیت سے زیادہ آزادی دے کر ثابت کر دیا کہ اسالم ہی سب سے زیادہ روادار مذہب ہے۔ بہت سے مقامی کلیسا پر بیرون ملک کے آرتھوڈکس کلیسا نے بدعتی کا الزام لگا کر ظلم و جبر کیا۔ اسالم ایک عالمگیر نظام ہے جو بجائے ظلم اور جبر کرنے کے ،لوگوں کے مختلف پس منظر

اور سوچ کا محافظ ہے اور ان کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ واحد حق ہے اور یہی منظقی دلیل ہے۔ ٹریٹن نے اسالم کے اس خوبصورت جزو یعنی رواداری کی ان خوبصورت الفاظ میں تحسین کی ہےمسلمان مجاہد کا ایسا خاکہ بلکل غلط ہے کہ جس میں اس کے ایک ہاتھ میں تلوار ہے اور دوسرے ہاتھ میں قرآن ہے

صرف اسالم ہی ہے جس کے عمل اور تعلیمات سے رواداری ایک بنیادی اور ناقابل فراموش جزو کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے عالوہ کہ مسلمانوں کے کسی گمراہ گروہ نے تاریخ میں کچھ ایسا کیا ہوا ، جس کا ذکر تاریخ میں بہت کم ہے۔ صرف خدا ہی کی بات ہمشہ رہنے والی ہے۔ جیساکہ میں نے اسالمی رواداری کی

مثالیں زیادہ تر غیر مسلم لکھاریوں ہی سے دی ہیں۔ اسالم کی رواداری کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ اسالم ہی ہے جو حق کے نظام اور حق کے کالم ہونے کا دعوی کر سکتا ہے اور جو جوں کا توں کالم الہی کے طور پر محفوظ ہے یعنی "قرآن مجید"۔ اس رواداری نے انسانی عقل کو اعلی علمی مباحث کے لیے میدان عطا کیا ہے اور یہی میرے اگلے حصے کا عنوان ہے