عالمگیریت اور مساوات
لوگوں کے رنگ، نسل، تمدن، تہذیب اور معاشی و معاشرتی حاالت سے متعقلہ یکسانیت کے اصول آج کی غالب تہذیبوں کے نظریات سے غائب ہیں۔ھندوستانی معاشرے نے صدیوں سے جاری شدہ ذات پات کے سخت نظام کو برداشت کیا ہے، جہاں بعض لوگوں کو تو
خدا و دیوتا کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور دوسری طرف بعض کو بمشکل ہی کسی غالم کے سے حقوق میسر آتے ہیں ۔ عیسائیت کو قدر کم ہی کبھی زندگی گزارنے کے اصول کے طور پر الگو کیا ہو مگر اس کی موجودہ تعلیمات میں بھی امتیازیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ تالمود ) موجودہ یہودیت کی اساس( کے مطابق یہودیوں کو دیگر تمام غیر اقوام پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔
اس گفتگو کو کمیونسٹ کے برابری کے نعرے - سب افراد یکساں ہیں- کو زیر بحث الکر مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے ، جو کہ حقیتا کبھی عمل میں نہیں الیا گیا۔ درحقیقت اس کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ بعض لوگ بعض سے زیادہ یکساں ہیں۔ کیپیٹل ازم، جیسے بہت سے مغربی میں معاشروں میں الگو ہے، نظریاتی طور پر قطعا موزوں نہیں کہ مساوات کا اطالق کر پائے۔بلکہ یہ تو امیر اور غریب کے درمیان امتیازی لکیر کو بڑھاوا دیتا ہے۔شولزم ، جو بظاہر تو کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے اغالط کی درستگی کرتا ہے
مگر بڑے واضح انداز میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے خال کو برقرار رکھتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ اور ابھی تک اپنے آپ کو بہتر متبادل ثابت نہیں کرسکا۔
مگر بڑے واضح انداز میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے خال کو برقرار رکھتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ اور ابھی تک اپنے آپ کو بہتر متبادل ثابت نہیں کرسکا۔ موجودہ زمانے میں زندہ جتنے بھی نظریاتی نظام ہیں ان میں صرف اور صرف اسالم ہی وہ واحدانتخاب ہے جو قابل اطمینان ہے کیونکہ یہ انسانیت کے حقوق کا محافظ ہے اور تمام انسانوں کو خدا کے کنبے کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں وہ سب تمام اختالفات کے باوجود امن اور سکون سے رہتے ہیں۔ تاریخی اور معاصر شواہد اسالم کی مساوات میں ایسی دلیل قطعی ہیں کہ کسی بحث کی گنجائش نہیں رہنے دیتے ۔
موجودہ زمانے میں زندہ جتنے بھی نظریاتی نظام ہیں ان میں صرف اور صرف اسالم ہی وہ واحدانتخاب ہے جو قابل اطمینان ہے کیونکہ یہ انسانیت کے حقوق کا محافظ ہے اور تمام انسانوں کو خدا کے کنبے کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں وہ سب تمام اختالفات کے باوجود امن اور سکون سے رہتے ہیں۔ تاریخی اور معاصر شواہد اسالم کی مساوات میں ایسی دلیل قطعی ہیں کہ کسی بحث کی گنجائش نہیں رہنے دیتے ۔
1-عیسائیت اورمساوات:
میں اس باب میں عیسائیت کی تعلیمات کا جائزہ لوں گا تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کیا ایسے نظریات دنیا کےتمام لوگوں کے
لیے ،تفرقات کے باوجود، قابل اطمینان ہیں؟ آسانی کے لیے عیسائیت کی کتاب بائبل کا حوالہ دیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ ان کا پیغام محدود عوام ، محدود وقت اور محدود خطہ کے لیے تھا ۔ چناچہ اس میں عالمگیریت کی کشش موجود ہی نہیں۔
ی المسیح علیہ السالم کو جو پیغام مال تھا وہ متی کے مطابق عیس ٰ ی علیہ السالم کی المسیح صرف ایک قوم کے لیے محدود تھا۔عیس ٰ جانب سے اپنے شاگردوں کو واضح طور پر ہدایات تھیں کی وہ یہ پیغام بنی اسرائیل کے قبائل سے باہر نہ لے کر جائیں۔
غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔
بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا
)متی باب 10 فقرہ 5،6)المسیح علیہ السالم سے منسوب ایک اس نکتہ کی وضاحت عیس ٰ اور واقعہ سے بھی ہوتی ہے۔
پھر یسوع وہاں سے نکل کر صور اور صیدا کے عالقہ کو روانہ ہوا۔ اور دیکھو ایک کنعانی عورت ان سرحدوں سے نکلی اور پکار کر کہنے لگی اے خداوند ابن داؤد مجھ پر رحم کر۔ ایک بدروح میری بیٹی کو بہت ستاتی ہےمگر اس نے اسے کچھ جواب نہ دیا اور اس کے شاگردوں نے پاس آکر اس سے عرض کی کہ اسے رخصت کردے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چالتی ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ مگر اس نے آکر اسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند میری مدد کر۔ اس نے جواب میں کہا لڑکوں کی ر
)متی باب 15 فقرہ 21-26)ی المسیح علیہ السالم نے واضح کیا ہے ان اقتباسات کے مطابق عیس ٰ کہ ان کا پیغام بنی اسرائیل تک ہی پہنچایا جائے نہ کہ تمام اقوام کہ لوگوں تک۔تاہم ایک مسلمان ہونے کہ ناطہ جو اس بات پر ایمان ی کہ ایکی کہ ایک ٰ ی المسیح علیہ السالم ہللا سبحانہ و تع
عظیم الشان اور جلیل القدر نبی تھے، میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ انہوں مندرجہ باال بائبل میں مرقوم گفتگو کبھی نہیں تکلم فرمائی۔)متی باب 15 فقرہ 26)
ہل اور شیڈل )1996 )میں ذکر کرتے ہیں کہ یورپی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ نامناسب رویہ ہی رکھا گیا ہے۔" مغربی یورپی تاریخ اور روایت میں عام طور پر سیاہ فام لوگوں کو الگ تھلگ ہی رکھا ہے۔ یا تو ان کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیا گیا، کبھی بھال دیا گیا یا کبھی ان کے 2 کردار کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔
جبکہ خدا کے پیامبر کبھی نفرت، بغض، عناد، یانسلی امتیاز جیسی کسی شے کی دعوت نہیں دے سکتے ۔ بائبل میں وقت گزرنے کے ساتھ اپنے اپنے ذاتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے ایسے اضافے کیے گئے جن سے امتیازی سلوک کی بدبو آتی ہے
نے ایک کوشی عورت سے بیاہ کر لیا۔ سو اس کوشی "اور موس ٰ عورت کے سبب سےنے بیاہ لیا تھا مریم اور ہارون اس کی بدگوئی کرنے جسے موس ٰ لگے۔ )گنتی باب 12 فقرہ 1)
پرانے عہد نامہ سے ایسے اقتباسات بیان کرتے ہیں کہ افریقی نسل کےیہودیوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ اسی امتیازی رویہ نے افریقی امریکی عیسائیوں میں احساس پیدا کیا اور بعد ازا نتیجہ با اثر افریقی امریکی کلیسا کے طور پر نکال۔ گڈ فرائی ڈے)ایسٹر سے پہلے کا جمعہ(،1993 ،آرچ بشپ جارج اگستس اسٹالنگز، جے۔ آر آف وشنگٹن ڈی۔سی، نےعیسی المسیح علیہ السالم کا ایک سفید رنگ واال پتال جالیا اور کہا کہ یہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں۔ یسوع 3 افریقی-ایشیائی یہودی تھے۔ دنیا کے طاقت ور ترین ملک میں نسلی امتیاز اور نسل پرسی کی صورت حال یہ ہے کہ تقریبا 327 گروپس 4 سفید فام لوگوں نے پورے امریکہ میں بنا رکھے ہیں۔
اپنے آپ کو اعلی اور برتر اور دیگر اقوام کو ناپاک سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کو کوہ سینا پر کچھ ایسا دیا گیا جو غیر اقوام کو نہیں دیا گیا۔
جب سانپ حوا کے پاس آیا تو اس نے ان میں ایک گندی حوس ڈال دی۔۔۔ اور جب اسرائیل کوہ سینا پر پہنچا تو یہ حوس مٹا دی گئی مگر مشرکین کی حوس ، جو کوہ سینا پر نہیں آئے تھے، نہیں مٹائی
۔)آبدہ زارہ 22ب(آئیے زوہار میں دیکھتے ہیں، جہاں یہودی ربی نے کتاب پیدائش کے اس فقرے کی یوں تشریح کی ہے "اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھاچاالک تھا"۔ ان کی تشریح ہے کہ:
یعنی سانپ برائی میں زیادہ چاالک تھا بنسبت تمام دشتی جانوروں کے۔ اور زمین پر مشرکین اور بت پرست اسی قدیم سانپ کے بچے ہیں جس نے حوا کو بہکایا تھا۔
)زہار 28:1ب(ور پھر تمام غیر یہودی )غیر اقوام( چاہے عیسائی ہوں ، بدھ مت یا ھندو سب کے سب کسی بھی طور سے یہودیوں کے برابر نہیں ہیں۔ اور یہودی تعلیمات ان کو غیر انسان مخلوق سمجھتی ہیں۔ ذیل میں تالمود کے اقتباس میں جس طرح دیگر لوگوں کی ہتک کی گئی ہے اسے پڑھ کر کوئی بھی پریشان ہو سکتا ہے۔
ایک غیرقومی۔۔۔ )ایک یہودی تو اس کا ہمسایہ ہوسکتا ہے ( مگر جوابا وہ )غیر قومی یہودی کا( ہمسایہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ )یہودی(اس کے کسی نقصان کا ذمہ دار ہے جو اس کی کوتاہی سے )ہی کیوں نہ(ہوا ہو۔ نہ ہی وہ اس کے مویشیوں پر نظر رکھے گا۔ یہاں تک کہ غیرقوموں کے لیے بہترین طور طریقے بھی بدلے میں قبول کرنے کے قابل نہیں۔
۔(13b.Bek(مالحظہ کیجئے کہ قرآن کے بیان کردہ انصاف کے تقاضوں سے یہ باتیں کس قدر ٹکراتی ہیں۔
"اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
(5:8 القرآن)عیسائی اور دیگر غیریہودیوں) کو تالمود میں کافر کہا گیا ہے اور وہ بھی (یہودیوں کی نفرت اور بے اعتباری سے بچ نہیں سکے۔
اگر کسی اسرائیلی اور یہودی کے درمیان کوئی معاملہ پیش آجائے تو اس کی توجیح اسرائیلی قوانین سے کر کے اس کو مطمئن کیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ ہمارا قانون ہے ۔ اسی طرح اگر تم اسے کافروں ہی کے قوانین سے مطمئن کرو تو اسے کہو یہ تمھارا قانون ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو ہم بہانے سے اسے دھوکاں۔ دیت
(baba kama 113a)دی جیوئش انسائکلوپیڈیا (Encyclopedia Jewish The(نے یہودی داناؤں کی آراء کا خالصہ کچھ یوں بیان کیا ہے۔ مشنا۔۔۔اگر کوئی غیر قومی اسرائیلی پر مقدمہ کرتا ہے تو فیصلہ مدعا علیہ کے لیے ہوگا اور اگر کوئی اسرائیلی مدعی ہو تو وہ نقصان کا پورا بدلہ پائے گا۔