عالمگیریت اور انسانیت کو درپیش مسائل کا حل

انسانیت کو آج بے شمارسنگین مسائل کا سامنا ہے ہے -ذاتی مسائل جیسے شراب نوشی اور جنسی بیماریوں سے لے کر معاشرتی مسائل جیسے بوڑھوں کی حالت زار، بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی اور ایسے مسائل جن سے ساری دنیا پریشان ہے یعنی

انسانیت کو آج بے شمارسنگین مسائل کا سامنا ہے ہے -ذاتی مسائل جیسے شراب نوشی اور جنسی بیماریوں سے لے کر معاشرتی مسائل جیسے بوڑھوں کی حالت زار، بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی اور ایسے مسائل جن سے ساری دنیا پریشان ہے یعنی جارحانہ جنگیں۔ اگر انسانیت کے لیے طرز زندگی کے طور پر کوئی بھی نظام پیش کیا جائے تو اسے اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ درپیش مسائل کی روک تھام کے لیے حل تجویز کرے ۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نئے اٹھتے مسائل کی انسداد بھی کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ایسے ہی نظام کی ہے جو ان مسائل کا حل اور انسداد کرسکے۔

1-شراب نوشی اور منشیات کی لت:

شاید آج کے بہت سے نظام خاص طور سے سیکولر نظام نے سائنس اور مادیت میں بہت ترقی کی ہے جس نے کچھ لوگوں کو مثبت فائدہ اور بہت سکون پہنچایا ہے ۔لیکن اس نے بہت سے لوگوں پر منفی اثرات ڈالنے کے ساتھ ساتھ انہیں جان لیوہ راستے اختیار کرنے اور تباہ کن عادات اپنانے پر مجبور کردیاہے۔ شراب اور منشیات کی لت آج ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے

اس کا حجم اب صحت اور معاشرتی تعلقات کو خراب کر رہا ہے۔ اس کے بڑھنے سے منشیات فروشوں اور ان ملکوں کے درمیان جو اس کا شکار بنتے ہیں ایک جنگ چھڑ چکی ہے ۔ شراب اور منشیات کےاثر میں کیے جانے والے جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے

صرف 1979 میں امریکہ میں 999،137،2 شراب سے متعلقہ درحقیقت شراب کے سنگین نتائج 72 جرائم پولیس کورپورٹ ہوئے۔ اس سے بھی بڑھ گئے ۔ اور 975 میں تقریبا 000،000،50 درمیانہ درجہ کے شراب نوش تھے جب کہ 000،000،14 شدید درجہ کے بہت سے امریکیوں 73 شراب نوش صرف امریکہ میں موجود تھے۔ میں شراب کا استعمال بہت تیزی سے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے ۔جو ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن گیا ہے ،جس پر قابو پانا بھی مشکل کام ہے۔

یہاں پر کوئی یہ سوال بھی پوچھ سکتا ہے کہ امریکہ میں اس قدر شراب کا مسئلہ کیسے بڑھ گیا؟ تو اس کا جواب پانچ امریکی ماہر عمرانیا ت نے یوں دیا:

آخری دہائیاں امریکہ میں کیمل دور سمجھی جاتی ہیں، لوگوں کو کائی بھی مسئلہ درپیش ہو وہ ان چیزوں کا استعمال کرتے ہیں چاہے کسی کو جسم میں درد ہو، کوئی ذہنی پریشانی ہو یا ادوری چاہتیں۔ بعض تو بہت آگے بڑھ گئے اور یہ تک کہ ڈاال کہ امریکہ تو ہے ہی منشیات کی تہذیب جہاں ہر سال طرح طرح کی منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اور شاید یہ وضاحت کافی قوی ہے

شراب نوشی اور منشیات کے استعمال کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے بہت سے ممالک نے احتیاتی تدابیر اپنائی ہیں۔ جیسا کہ امریکہ میں 1920 میں شراب اور ہر طرح کی منشیات کی فروخت پر پابندی لگائی گئی ۔ اس کا نام prohibition law ہے جو 1920 سے 1933 تک ہی عمل میں رہ سکا۔ FBI اور دیگر بڑے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہوتے ہوئے یہ قانون بری طرح فیل ہوگیا اور کامیاب نہ ہوسکا۔

National Prohibition Act کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہوئی۔ ممنوعات کی غیر قانون تیاری، منتقلی اور خرید و فروخت نے منظم جرائم کو جنم دیا اور ان کو سود مند کاروبار بنا دیا۔ اور یہ سارا تجربہ بری طرح ناکام ہوگیا۔

یہ سنگین مسئلہ صرف امریکہ ہی کو درپیش نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر بڑے معاشرے بھی شراب نوشی سے یاکسی اور منشیات سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، جو سال 2000 میں روسی روزنامچہ [ Kommersant, Moscow, May 19, 2000, in Ben Adam (2006) “Alcohol: The Devils’ Deadly Disease”. http://www.islamreligion.com/articles/454/]Kommersant کی جانب سے شائع کی گئی ، تین میں سے دو روسی مرد شراب کے نشے میں مرتے ہیں جن میں سے آدھے شدید نوعیت کے شرابی نشے میں مرتے ہیں۔ 57.4 سال کی عمر کے بعد یورپ میں روسی مردوں کی شرح زندگی کم ہے۔ روزنامچے نے ماسکو اور اڈمورتیا کے شہروں میں 20-55 سال کی عمر کے مردوں میں تین سال کی تحقیق کے بعد یہ رپورٹ شائع کی۔

ہرکوئی شراب پئے ہوئے ہے، کوئی قاتل ہے تو کوئی مقتول ، نشے میں دھت ڈوب رہے ہیں، خودکشی کرہے ہیں، سوار اور پیادے ٹریفک حادثات میں مر رہے ہیں، اوربعض ہارٹ اٹیک یا السر سے مر رہے ہیں

مسٹر شرنینکو جو National Organization of Russian Muslims کے نائب چیرمین ہیں، وہ شراب نوشی کے معاملے پر فرماتے ہیں:

کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ ووڈکا یا وائن روسی تہذیب کا خاصا ہے مگر میں شراب نہ پی کر بھی اچھا روسی بن سکتا ہوں۔ روس میں زیادہ تر معاشرتی مسائل شراب کے استعمال کی وجہ سے ہیں۔اگر ہم روس میں اسلامی معاشرتی اقدار متعارف کروائیں تو معاشرہ اور ملک زیادہ مستحکم ہوجائے گا۔

یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ یہودیت اور عیسائیت سمیت کوئی بھی نظام ایسے مسائل کا کوئی سنجیدہ حل پیش نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ شراب نوشی اگر سب نہیں تو زیادہ تر مذہبی اور سرکاری تقریبات کے مواقع پر ایک اہم جز وسمجھی جاتی ہے، چہ جائے کہ بائبل کی تعلیمات کے مطابق یہ ممنوع ہی ہے۔ منشیات کے بارے میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نام نہاد عیسائی حکومتیں منشیات کے استعمال کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں ہیں یا اس طرح کے منصوبہ جات شروع کر چکے ہیں۔ جیسے نشے کے عادی افراد میں سرنجوں کی مفت تقسیم۔ جو منشیات کی لت رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہے نہ کہ اس مسئلہ کی انسداد۔ آخری پانچ سالوں میں صرف امریکی حکومت نے 52 بلین ڈالر منشیات سے نجات کے لیے استعمال کیے ہیں اور بہت کم ہی کامیابی حاصل ہوئی

جنرل نورمن کووارزکوف ، گلف وار میں اتحادی فوج کے کمانڈر، نے امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے سعودی عرب میں شراب نوشی پر پابندی نے ہماری فوجیوں کو بہتر اور مزید نظم و ضبط کا پابند بنایا۔June 13, 1991:

ہمارے بیمار ہونے کی شرح کم ہوئی، حادثات اور زخمی ہونے کی شرح کم ہوئی ، نظم و ضبظ ٹونے کے واقعات کم ہوئے۔ جوکچھ بھی ہومملکت سعودی عرب میں شراب پر پابندی کی وجہ سے ہمیں شفائی نتائج ملے۔

اسلامی حل:

بہت سے ماہرین عمرانیات یہ سمجھتے ہیں کہ شراب نوشی اور نشے کی لت کا معاشرتی مسئلہ ناقابل حل ہے۔ اور ان کا خیال ہے کہ پولیس اور سیاستدان اب کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ اس کو جڑ سے ختم کر ہی نہیں سکتے۔ وہ معاشرے جہاں شراب نوشی اور منشیات کا استعمال شدت اختیار کر گیا ہے وہاں اس کے اصلی محرکات پر گفتگو ہی بند کردی گئی ہے۔ بلکہ وہ اب اس بات پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس اثرات کو کیسے قابو کیا جائے اور ان کی حدبندی کیسے کی جائے۔ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو شراب کی تیاری سے لے کر اسے بیچنے اور استعمال کرنے پر حرکت میں آئے لیکن ڈرائونگ کرتے وقت "خاص مقدار" کا قانون حرکت میں آتا ہے۔

یہاں پر بھی قانون ہے مگر جڑ کو نہیں پکڑا جا رہا۔ یعنی علامات مرض کا علاج سوچا جارہا ہے مگر حقیقی مرض کی دوا کی فکر نہیں کی جارہی۔پائلٹ کبھی بھی کسی بھی وقت شراب پی سکتے ہیں مگر ہوائی جہاز اڑاتے وقت انہیں پینے کی اجازت نہیں۔ شراب کی تشہیر اس قدر زیادہ ہے کہ بچے اٹھارہ سال کا ہونے کا انتظار نہیں کر پاتے اور قریبی مہ خانے سے شراب کو خرید کر یوں لوٹتے ہیں گویا کوئی سوغات لائے ہوں۔

ایسے تمام تضادات اور دہرے معیار وں کو اسلام میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ اگر شراب ڈرائونگ کے دوران نقصان دے ہے تو وہ ہر وقت ہی نقصان دہ ہے۔ اگر وہ اٹھارہ سال سے چھوٹوں کے لیے نقصان دہ ہے تو وہ ہر عمر کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کا ثبوت بہت سےوہ سنگین جرائم ہیں جو شراب یا منشیات کے اثر میں ہر سال کیے جاتے ہیں۔

اسلام-- جو حقیقی طور پر خدا کی تعلیمات کا مجموعہ ہے-- کا وجود اس مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑ سکتاہے۔ اس لیے وہ ایسا کوئی موقع ہی نہیں چھوڑتا کہ جس سے اس کے تباہ کن نتائج کو کوئی انسان یا معاشرہ بھگتے۔ ایسے تمام مواقع جو کسی طور بھی شراب کے طرف مائل کرسکتے ہیں وہ شرعی طور سے ممنوع ہیں۔

اس لیے علامات کے خاتمہ پر طاقت صرف کرنے کی بجائے بیماری کی جڑ ہی کا علاج کیا گیا ہے۔ اسلام اس بات کا شروع ہی سے خیال رکھتا ہے کہ اس کے مانے والوں میں خود احتسابی کا ایک جذبہ پیدا ہوجائے۔ تاکہ کسی بیرونی قوت کے استعمال کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ قرآن میں اکثر مقاما ت پر اس کا ذکر ہے۔

اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔

(القرآن 5:8)

اسلام نے زندگی کا ایک مکمل نظام قائم کیا ہے جس میں اس کا ہر ہر شعبہ ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتا ہے۔ تمام حل جو پوری دنیا میں مسائل کے تدارک کے لیے پیش کیے گئے ہیں وہ کسی معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکے۔ جس کا نتیجہ معاشرتی افراتفری کی شکل میں ظاہر ہوا۔

لیکن اسلام میں ، جیسے روزہ اسلام کے پانچ میں سے ایک بنیادی ستون ہے۔ جہاں اسلام اپنے ماننے والوں میں خود احتسابی کے ساتھ ساتھ خود تادیبی کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔

مسلمانوں کو یہ بات سکھائی جاتی ہے اللہ نے ہر پاک چیز کو حلال کیا ہے اور ہر ناپاک چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔

(القرآن 7:157)

جب ایمان النے والوں کے دلوں میں ایسے عقائد بٹھائے جائیں گے تو لوگ خالق کائنات کے ان احکام کو مانیں گے جن میں مخصوص کاموں سے روکا گیا ہے اور مخصوص اشیاء کھانے پینے کے لیے ممنوعہ قرار دی گئی ہیں۔ احکام کی ایسی تعمیل کی مثال ہمیں اسالم کے اولین دور میں ملتی ہے۔ جب قریشی )مکی( اور اسالم سے پہلے کے لوگ شراب نوشی کو مشترکہ معاشرتی عادت سمجھتے تھے

جیسے آج کے غیر مسلم معاشرے سمجھتے ہیں۔ تاہم خدا کا حکم آتے ہی مسلمانوں نے جیسے بتوں کی پرستش چھوڑ دی تھی اسی طرح حکم پاتے ہی شراب نوشی کو بھی ترک کردیا۔اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پاسے )یہ سب( ناپاک کام اعمالشیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔شیطان تو یہ چاہتا ہےکہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو )ان کاموں سے( باز رہنا چاہیئے۔اور خدا کی فرمانبرداری اور رسو ِل )خدا( کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے۔

(5:90،91،92 القرآن)

پر شراب پینا چھوڑ دی۔

پورے مدینہ میں لوگوں نے فوری طور پر شراب پینا چھوڑ دی۔ انہوں نے اپنے شراب کے ذخیرے سے شراب یوں نکال پھیکی کی مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ انہیں اپنے رب کے حکم کی

تعمیل میں ذرا سی بھی قباحت محسوس نہیں ہوئی۔ وہاں اس بری لت کو چھوڑوانے کے لیے الکھوں بلین ڈالر بھی نہیں خرچ کرنے پڑے اور نہ ہی اعلی تربیت یافتہ ایجینسیز کا استعمال کرنا پڑا۔ یہ ہےاسالمی نظام کی طاقت! لوگ خود ہی آگے بڑھ کر قدم اٹھاتے ہیں اور اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں وہاں کوئی بیرونی طاقت یا دباؤ کی ضرورت پیش آتی ہی نہیں۔ اپنی ذات کو خدا کے حکم کےتابع کرنے والے یہ الکھوں لوگ اسالم کے پیروکار تھے جنہوں نے اسالم کو بطور نظام حیات اپنا رکھا تھا:

دین )اسالم( میں زبردستی نہیں ہے ہدایت )صاف طور پر ظاہر اور( گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان الئے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا )سب کچھ( سنتا اور )سب کچھ( جانتا ہے

(2:256 القرآن)

اسالم میں سرتسلیم خم کرنے کا تصور اور آزاد سیکلولر معاشرے میں ناپسندیدہ آمادگی کا تقابلی جائزہ لینا چاہیے۔ جب 1920 میں Prohibition of Law امریکی حکومت کی جانب سے الیا گیا تھا تو لوگ ذہنی اور روحانی طور پر اس پر عمل کے لیے تیار نہیں تھے۔ حقیقت میں ایسا کوئی نظام زندگی نہیں جس میں ایسے قوانین نفاذ کیا جائے۔ انسان کے نافذ کردہ قوانین میں ممکن نہیں کہ ٖ کا کوئی مخالفت نہ کرے ۔ جب لوگوں کو باہم تھامنے کے لیے کوئی ایک قوت نہ ہوگی تو ہر چیز انتشار کا شکار رہے گی کیونکہ لوگ میں جیتے ہیں

2-جرم:

جرم )منظم جرائم، راہ زنی، ریاستی جرائم،معاشرتی جرائم( اپنی تمام شکلوں میں ہماری دنیا کے امن اور سالمتی کا بڑا دشمن ہے۔ تاہم جرم جیسے بڑے عالمی مسئلہ کے حجم کا یہاں احاطہ کرنا ممکن 80 نہیں

The نے Federal Bureau of Investigation (FBI) (UCR (Report Crime Uniform میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں رپورٹ ہونے والے تمام جرائم 1976- 1995 تک 5 ٪بڑھے ہیں۔ 1985 میں کل گرفتاریاں 9.11ملین تھیں جن میں 1984 تک 3 ٪اٖضافہ ہوا۔ ایک ایسے ملک کے لیے جس 81 کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس سکیورٹی کا بہترین نظام ہے اس کے لیے یہ اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں۔ علم جرائت کے جاننے والوں کے مطابق UCRکے اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے اس سے زیادہ قابل اعتبار حوالہ ادارہ (NCS (Survey Crime National کی ساالنہ رپورٹ ہے۔ اس سروے میں وہ جرائم بھی شامل ہیں ج

پولیس کو رپورٹ نہیں ہوتے۔اس کے 1985 کے سروے کے مطابق 25 ( ٪ امریکہ میں چار میں سے ایک گھر( خاندانوں نے یا تو فرد 82 یا پھر پورا خاندان ہی جرم سے متاثر ہوا ہے۔

BIکی طرف سے مہنگی ترین کوششوں کے باوجود جرم روکنے کے لیے کوشاں پولیس افسروں کی شرح اموات کو بھی کم اور نہ ہی جرم کی شرح پر قابو پایا جاسکا ہے۔ 83 نہیں کیا جاسکا ، قتل میں Uniform Crime Report (1995) ،مطابق کے FBI ڈکیتی اور زنا بالجبر کے واقعات

ی ، 14,872,900 (1992) کر بڑھ 11, 349,700 (1976) جس میں 200,537,3 جرائم کی رپورٹس کا ضافہ ہوا۔ اور 84 Justice Departments’ Bureau of Justice Statistics کی تازہ اعداد و شمار 2006 کے مطابق کے مطابق تقریبا ہر 3

امریکیوں میں سے ایک حواالت یا جیل میں رہ چکا ہے یا مشروط اب کیا کوئی بھی ذی شعور انسان اس بات کو 85 رہائی پا چکا ہے۔ تسلیم کر سکتا ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کی رہنما اور سپر پاور کا دعوی دار ملک اپنے شہروں اور گلیوں میں امن اور سکیورٹی النے میں ناکام ہے تو وہ باقی دنیا کے امن و سکیورٹی کی یقین دہانی کیسے کروا سکتا ہے؟

پنی بہت سے 86 ان اعداد و شمار اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ جرم صورتوں میں فرد اور معاشرہ کے امن و سالمتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ جرم کی انسداد کے لیے بہت سے طریقہ کار کامیاب نہیں ہوسکے یا ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ Justice of Bureauکے تازہ

اعداد و شمار کے مطابق 1970 میں 000,268 لوگ پچاس ریاستوں میں جیل میں تھے۔ اور سال 2006تک یہ تعداد 4.2ملین سے بھی بڑھ گئی۔ اس حیراکن اضافہ کے باوجود جرم کی شرح میں کوئی یہاں زیادہ تر اعداد و شمار مغربی معاشروں 87 کمی واقع نہیں ہوئی۔ کا ہی پیش کیا گیا ہے۔ مغربی معاشرے میں انسداد جرم کے تمام طریقے، ان بڑھتے ہوئے اعداد شمار کے بعد ناکام نظر آتے ہیں ۔ جو اس بات کی طرف ہماری توجہ کرواتا ہے کہ درحقیقت جرم کو سزا کی بجائے انسانی زندگی میں مناسب تربیت کا بندوبست کر کے بہت کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا نظام جس نے لوگوں کو جرم کی بے سکونی سے نکال کر زندگی میں امن اور سالمتی بخشا ہے

سالمی حل:

سالمتی اور حفاظت کا اسالمی نظریہ موجودہ دور میں رائج کسی بھی نظام سے جامع تر ہے۔ اسالمی نظام انسان کو اس کائنات کا ایک جز واور ان کے آپسی ربط کو تسلیم کرتا ہے۔ اسالم جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی عوامل کے دائرہ کار کو معاشرتی نظام کی سالمتی کا اہم جزو تسلیم کرتاہے۔ اسالم صرف مجرم سے جرم کے بعد خاص رویہ روا رکھنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ جرم سے پہلے ہی انسداد جرم کے رویہ کو اپنایا جائے۔ دوسرے الفاظ میں اسالم بٹھکنے اور اللچ کے ممکنہ ذرائع کا ہی قلع قمع کرتا ہے۔ جبکہ جدید معاشرہ خود ان عوامل

شراب،تشدد ،جنسی فحاشی(کا پرچار کرتا ہے ۔ لیکن حقیقی اسالمی معاشرہ بٹھکانے کے ان ذرائع ہی کا راستہ روکتا ہے اور اگر سزا کی ضرورت آ ہی جائے تو پھر سزا سخت ہوتی ہے جو اس وقت موثر بھی ہوتی ہے۔

زیادہ تر جدید معاشروں میں انسداد جرم کے بلکل برعکس جرم کی ترغیب دہی کی راہ اپنائی جاتی ہے۔ یعنی جرم پر اکسانے کے تمام ذرائع وافر مقدار میں مہیا کیے جاتے ہیں۔ اور جب سزا کی باری آتی ہے تو نہات نرم اور غیرسنجیدگی سے عمل کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر متعاصبانہ کاروائی کی جاتی ہے یا پھر مجرم کے حقوق مظلوم کے حقوق سے بڑھ جاتے ہیں۔

اسالمی تعلیمات عبادتوں )نماز- دن میں پانچ مرتبہ باہمی اخوت کا درس، روزہ- غرباء و مسکین کے لیے احساس، زکوۃ –غریبوں محتاجوں کا حق( میں عملی لحاظ سے اس بات کا پرچار کرتی ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے ذمہ دارانہ رویہ اپنایا جائے، ایک دوسرے کی عزت کی جائے اور اپنے اندر امن ، سالمتی،خیرسگالی کے جذبات کو تقویت دی جائے۔ اپنے روحانی اثر میں یہ سب ہر ہر فرد کو برائی سے روکتی ہیں۔ امریکہ میں اسالم سے متعلق T

r Science Christianنے ایک ویڈیوں فلم بنائی جس میں ان قیدیوں کی مسلمان ہونے سے پہلے اور مسلمان ہونے کے بعد کی زندگیوں کا تذکرہ کیا گیا ۔ اسالم النے سے پہلے بہت سے قاتل، منشیات فروش اور عادی مجرم تھے مگر اسالم قبول کرنے کے بعد وہ باعزت ، مہذہب اور معاشرے کے لیے فائدہ مند شہری بن گئے۔ مغربی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ Maximum Prisons Security کے زیادہ تر قیدی عادی مجرم ہوتے ہیں یعنی وہ رہائی کے کچھ عرصہ بعد ہی واپس جیل آجاتے ہیں۔ (BJS (Justice Of Bureauکے مطابق 1994 میں جتنے قیدیوں کو آزاد کیا گیا تھا ان میں سے %5.67 قیدیوں کو اگلے تین سال

میں دوبارہ پکڑا جاچکا تھا ۔ BJSکی طرف سے یہ اب تک کی حال ہی میں لکھے گئے ایک مضمون 88 سب سے تازہ رپورٹ ہے۔ ‘Would God use Prisons to rehabilitate criminal minds?’

میں مصنف اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس نظام میں مسائل نسل در نسل چلے آرہے ہیں اور سالوں سے اس میں کوئی اچھی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔جو باجود ٹھیک ٹھاک فنڈز کے خرچ کرنے کے، جرم

کی روک تھام میں نا کامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ Christian The کے مطابق ایسے اعداد و شمار یکسر تبدیل 89 Monitor Science ہوجاتے جب یہی قیدی اسالم قبول کرتے ہیں۔ امریکہ کے اندر جرائم میں کمی کے تمام مہنگے طریقوں کے ناکام ہونے کے بعد اسالم نے سب سے کار آمد طریقہ پیش کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسالم ہی عالگیر نظام ہونے کے قابل ہے اور اس کی تعلیمات کو پوری دنیا کو اپنانا چاہیے۔

3 -بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی

خاندان معاشرہ کا ایک ایسا اداراہ ہے جہاں محبت اور خلوص فروغ پاتے ہیں۔ وہاں ایک دوسرے کے ساتھ برداشت اور رواداری کا معاملہ کرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت جدید معاشرہ میں یہ ادارہ کارآمد

امریکا کہ 90 نہیں رہا اور اس کے بر عکس ہی نتائج پیش کررہاہےدفتری اعداد و شمار کے مطابق 20 ٪گھریلو قتل خاندان ہی میں 91 ہوتے ہیں

روسی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق صرف 1993 میں 500,14 روسی خواتین کا قتل ان کے خاوندوں نے کیا اور مزید 400,56 خواتین کو یا تو معزور کردیا گیا یا ان کو شدید زخمی کردیا گیا۔"انگلستان اور امریکہ میں عورتوں پر گھریلو تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار پریشان کن ہیں"۔ Research Office Home کے مطابق انگلستان اور ویلز میں گھریلو جرائم میں سے 18 ٪وہ 92 ہیں جن میں بیویوں کو ان کے خاوندوں نے قتل کردیا۔

جیساکہ بچے خاندان کے کمزور ترین فرد ہوتے ہیں اس لیے تشدد اور زیادتی کی بڑی شرح ان سے متعلق جرائم کی ہے۔ بچوں پر تشدد یا زیادتی میں والدین کے بہت سے وہ افعال آجاتے ہیں جن میں کسی بھی عمر کے بچوں کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچا

ہو۔لیکن ظلم کی نوعیت بچوں کی عمر کے ساتھ ساتھ مختلف ہیں۔ چھوٹے بچوں پر شدید چوٹ جیسے جھلسنے اور ہڈی ٹوٹنے کے واقعات بہت عام ہیں۔ اس کو Syndrome Child Batteredکے نام سے 1960 میں باقاعدہ نام سے جانا گیا۔ تاریخی اعتبار سے زنا کی درج شدہ شکایات میں چھیڑ چھاڑ سے لے کر زنا تک زیادہ تر مردوں ہی کا قصور ہوتا ہے اور ان کا نشانہ عام طور پر

اسکول جانے والے بچے یا خاندان کی نو عمر لڑکیاں بنتی ہیں۔ لیکن حال ہی میں چھوٹے بچوں اور مرد بھی اس کا نشانہ بنے لگے ہیں۔ اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے 93 واقعات میں ہر سال 30 ٪تیزی آرہی ہے۔ 1973 سے 1982 کےدرمیان بچوں سے زیادتی کی 5.1 ملین کیس تھے، جن میں سے 000،50 کا نتیجہ موت ہوا اور 000،300 کا نتیجہ کسی بڑے بچوں کے ساتھ زیادتی کے 94 نقصان کی صورت میں برآمد ہوا۔ واقعات صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ برطانیہ میں مثال National Security for the prevention of پر طور کے children to cruelty کی رپورٹ کے مطابق بچوں سے زیادتی کے واقعات میں 1979 سے 1984 کے درمیان 70 ٪اضافہ وارد ہوا ہے۔ Guardian Theکی ایک رپورٹ ؛امریکہ میں عورتوں سے متعلق جرائم میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس قدر اضافہ کسی اور جرم میں نہیں ہورہا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ۔ تقریبا ہر سال 3-4 ملین خواتین پر خاوند یا اس شخص کے ہاتھوں جس کے ساتھ وہ رہتی ہیں لگاتار تشدد کیا جاتا ہے۔ مقتول خواتین کا ایک تہائی ان کے اپنے خاوندوں یا 96 بوئےفرنڈز کے ہاتھوں قتل ہوا ہوتا ہے۔

4 -زنا بلجبر اور جنسی طور پر حراساں کرنا:

مغرب زنا بلجبر کے بڑھتے واقعات کی نشان دہی اگست 1991 کے issue Epsilon Theسے ہوئی۔ اس رپورٹ سے معلوم ہوا کہ گریسس جیسا ملک جہاں کی آبادی 8 ملین سے زیادہ نہیں وہاں

1978-1987 کے درمیان 000،10 زنابلجبر کے واقعات رپورٹ ہوئے۔صرف 1982 میں ، اٹلی میں 4000 زنا بلجبر کے واقعات ہوئے۔ 1980 کے درمیان فرانس میں 000،55 سے زائد زنا بلجبر

کے جرائم ہوئے۔ اور جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہاں 000،102 97 زنابلجبر کی شکایات کا اندراج ہو ،Federal Bureau of Investigation (FBI) ،میں ہی حال نے یہ رپورٹ جاری کی ہے کہ 1970 سے 1997 کے درمیان صرف 98 زنابلجبر اور اقدام زنا کے جرائم میں 70 ٪اضافہ ہوا ہے۔ 1970 میں 990،37 زنا کے واقعا ت کی شکایت کی جبکہ اس کے مقابلے میں 060،109 واقعات صرف 1992 میں رپورٹ ہوئے۔

چونکہ زنا بلجبر کی بات چل رہی ہے اس لیے یہاں ان خواتین کے جنسی حراساں کیے جانے کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے جو کام کاج کرنے والی خواتین ہیں۔ جو کہ ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ Equal مطابق کےEmployment Opportunity Commission خواتین مالزمین کو جنسی طور پر حراساں کیے جانے کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ 1989 میں جنسی چھیڑ چھاڑ کے 603،5 شکایات کا اندراج ہوا بلمقابل سال 1993 میں کہ جب 99 537،12 واقعات رپورٹ ہوئے

The Equal Employment Opportunity Commission کے مطابق 1992 میں جنسی طور حراساں کیے جانے والی مالزم خواتین کی 578،10 شکایات تھیں۔ 1993 میں یہ اعداد و شمار بڑھ کر 537،12 واقعات ہوگئے۔ یہ مسئلہ صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں مرد و زن کے اخطالط میں کوئی

عار نہیں سمجھی جاتی۔ Labor International The (ILO(Organizationکی رپورٹ کے مطابق جس کا عنوانCombating Sexual Harassment at work ,November ,1992 اس صنعتی دنیامیں ہر سال ہزاروں خواتین کو ان کی کام کرنے کی جگہ پر جنسی طور سے حراساں کیا جاتا ہے۔ ILOکے سروے انٹرویوں کے دوران 15-30 فیصد خواتین نے اس مسئلہ کے شکار ہونے کا اقرار کیا ہے۔ امریکہ کی سب خواتین سے سروے بعد 42فیصد خواتین نے کسی نہ کسی طرح کی جنسی چھیڑ چھاڑ کے متعلق بتایا۔ Department Research Laborنے 1987 میں ایک سروے کے دوران 75 فیصد خواتین کو ان کی کام کرنے کی جگہ پر جنسی چھیڑ چھاڑ کیے جانے یا انکا اس کا شکار رہنے کا معاملہ سامنے آیا۔ یہ سروے ان ممالک میں کیا گیا تھا، اسٹریلیا، 100 آسٹریا، ڈینمارک، فرانس، جرمنی، جاپان اور برطانیہ

Magazine Epsilon The زنا بالجبر کے متعلق کچھ بڑے ماہرین نفسیات و عمرانیات کے خیاالت بھی بیان کرتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جانوروں میں ایسے مسائل نہیں ہوتے ۔ مزید براں انہوں نے مغرب اور مغرب نما معاشرت میں ایسے مسائل کے بڑھنے کی بڑی وجوہات جو بیان کی ہیں وہ یہ ہیں:

  • 1 -میڈیا: زنا پر ابھارنے کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ فحش فلموں کے عالوہ ٹی وی فلموں اور ڈراموں میں بھی زنا سے متعلقہ تشدد اور جنسی خواہشات کو ابھارنے والے مناظر دکھانے کی وجہ سے نوجوانوں پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔
  • 2 -اس میں ایک اور وجہ نشہ بھی ہے۔ %6.37زنا بالجبر کی شکایات کے پیچھے اصل محرک نشہ ہی ہوتا ہے
  • 3 -اس میں کمرشل وجوہات بھی شامل ہیں جو زنا کے بڑھنے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ کپڑوں کے ایسے ڈیزائن جن کی وجہ سے عورت کے جسم کے اعضاء واضح ہوتے ہیں اور اس طرح کے جرم پر ابھارنے کا سبب بنتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ لوگوں میں داد وصول کرنے اور حسین دکھنے کے شبہ میں پہنتی ہیں۔ زنا بلجبر کی شکایت کرنے والی بہت سی خواتین نے بتایا ہے کہ جب ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تب وہ ایسے ہی کسی لباس کو پہہنے ہوئی تھیں۔
  • 4 -مخلوط تعلیم بھی زنا کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ایک سبب ہے۔ جہاں دونوں جنسوں کو اکٹھا بٹھا کر یہ سکھایا جاتا ہے آپسی جنسی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں۔
  • 5 -خاندانی نظام کے تباہ ہونے کی وجہ سے خاندان کے نوجوان افراد گھر سے باہر محبت کی تالش میں مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایسے بہت سے واقعات پیش آتے ہیں جس کے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔ہزاروں سینکڑوں بچوں کے باپ کی کوئی پہچان نہیں۔
  • 6 -مذہب کو عملی زندگی سے الگ کرنے کی وجہ سے زندگی افراط و تفریط کا شکار ہوگئی ہے
  • 7 -چونکہ زیادہ تر مغربی معاشرت کی بنیاد عیسائیت پرہے جہاں شاید الشعور میں عورت کو گھٹیا جنس سمجھنے کا تصور اس بات کی وجہ بنتا ہے کہ ان کو خواہشات کی تسکین کا زریعہ سمجھا جائے۔
  • 8 -ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے ممالک کے قوانین میں زنا پر خاطر خواہ سختی نہیں ہے۔ زانی کو سخت سزا نہیں دی جات۔ عام طور پر زیادہ سے زیادہ درمیانے درجے کی دوسال کی قید 101 سنائی جاتی ہے۔

ھندو معاشرے میں عورت کا وجود اس کے خاوند کے مر جانے کے بعد اس قدر بوجھ ہو جاتا ہے کہ اسے "سطی" ہونا پڑتا ہے جو خودکشی کی ایک قسم ہے۔ گستاو لی بون نے ھندو معاشرت کے 102 اس پہلو پر کہا ہے کہ:

اپنے خاوند کے جنازے کے ساتھ ہی عورت کو جالیا جانا ایک ایسا عمل ہے جو شاسترہ میں نہیں ملتا۔ یہ عمل ھندوستان میں بہت عام ہوگیا ہے اور اس کے تانے بانے یونا نیوں سے ملتے ہیں

عورتوں کی اس تحقیر پر ھندوستانی میڈیا کی رپورٹس دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان کے مطابق بہت سی نومولود لڑکیوں کو اس لیے زندہ دفن کردیا جاتا ہے کیونکہ انہیں معاشی بوجھ سمجھا جاتا ہے

One-Child-Only Policy کہ ہے کرتا رپورٹThe Times کا جب چین میں اطالق ہوا تو زیادہ تر چینی والیدین کی خواہش ہوئی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو۔ جس کی وجہ سے اگر حمل میں لڑکی ہو تو حمل ضائع کرواتے ، یا اپنی نومولود بیٹیوں کو قتل کردیتے

اپنی نوجوان بیٹیوں کو بیچ دیتے ۔ اسی معاملہ میں چینی پولیس نے 49 افراد پر مشتمل ایک گرہ کو پکڑا جس کا کام پورے چین سے لڑکیوں کو خریدنا، منتقل کرنا اور بیچنا تھا۔چین میں ننھی لڑکیوں پرہونے والے اس ظلم کی شکل میں اس پالیسی کا جو نتیجہ نکال اس C

Chinese Committee for State ہوئے دیکھتے کlanningنے یہ رپورٹ پیش کی کہ مردوں کی تعداد عورتوں سے 36 ملین زیادہ ہےآج کی الدین ریاستوں )امریکہ،یورپ، روس، برطانیہ، ھندوستان،چین(میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے واال رویہ قبل از اسالم جہالت کےدور سے بہت ملتا جلتا ہے۔ اسالم نے آتے ہی عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم کو روکا اور عورتوں ، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو سب کو ان کا باعزت مقام عطا کیا۔

معاشرتی افراتفری جو زیادہ تر مغربی معاشرت کو اپنے گھیرے میں لے رہی ہے وہاں نہ صرف معاشرے کے کمزور طبقوں پر زیادتی ہورہی بلکہ اس بے راہروی سے تعلیم اور انتظامی میدانوں کی شخصیات بھی محفوظ نہیں۔ Foundation Carnegieکی ایک رپورٹ کے مطابق ان اساتذہ کی شرح جو یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ زبانی کالمی بدتمیزی ہوئی ہے وہ 51 ٪ہیں۔ اور وہ جن کو معمولی چوٹیں بھی پہنچی وہ 16 ٪ہیں۔ اور وہ جن پر حملہ 104 ہوا وہ 7 ٪ہیں۔

اس سے باالتر کے مغربی معاشرے کا قانون جنسی چھیڑچھاڑ اور زنا کو کیسے دیکھتا ہے، یہ سب حاالت اخالقی انحطاط کی پریشان کن مثال ہے۔ امریکہ میں ہر چار میں سے ایک غیرشادی شدہ سفید عورت کا انیس سال کی عمر سے کوئی نہ کوئی تعلقات ضرور 105 ہوتے ہیں۔ یہ عدد 1900 میں 6 ٪تھے۔ چار میں سے ایک بچہ بغیر شادی کے بندھن کے پیدا ہوتا ہے، اس میں وہ الکھوں بچے

شامل نہیں جو حمل کے دوران ہی ضائع کروائے جاتے ہیں۔ یورپ بھی امریکہ سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ کینیڈا میں بغیر نکاح کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 1960 میں 4 ٪تھی جو 2000 میں 31 ٪ہوگئی، جو برطانیہ میں 5 ٪سے 38 ٪ہوئی، فرانس میں 6 ٪سے بڑھ کر 36 ٪ہوئی۔دی گئی مثالیں مغربی ممالک کی ہیں مگر دوسرے غیر مغربی معاشرے ان معاشرتی ناصوروں سے محفوظ نہیں ہیں۔ معاشرتی ترقی کے لیے پوری دنیا کی اقوام نے مغرب کا طرز زندگی اپنا رکھا ہے اور حقیقتا ان کا معاشرتی بگاڑ اپنایا ہوا ہے۔ وہ اس قابل نہیں کہ مغربی ٹیکنولوجی حاصل کر سکیں یا مادی خوشحالی پا سکیں۔

اسالمی حل:

اس میں کوئی شک نہیں عورتوں کے ساتھ پوری دنیا میں کی جانے والی زیادتی اور ان معاشروں کا عورت کے بارے میں بنیادی نظریہ آپس میں گہرا تعلق رکھتا ہے۔ جبکہ اسالم عورت کو مرجع برائی نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے جنسی تسکین کا کائی کھلونا سمجھتا ہے کہ جس کے ساتھ مرد جو چاہے کرے۔ اسالم عورت کو خاندان اور معاشرے کا ایک اھم جزو سمجھتا ہے۔ وہ خوشی اور سکون کا ذریعہ ہے

ور اسی کے نشانات )اور تصرفات( میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ اُن کی طرف )مائل ہوکر(

آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لئے ان باتوں میں )بہت سی( نشانیاں ہیں)30:21 القرآن)

اسالم اس بات کی بہت تحسین کرتا ہے کہ نوجوان اور بوڑھی عورتوں کا خیال رکھا جائے۔ اسالم اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ معاشرے کے افراد عورتوں کے ساتھ عدل اور انصاف کا معاملہ کریں، چاہے وہ بیٹیاں ہوں، بیویاں مائیں یا بہنیں۔

ی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللاصلى الله عليه وسلم ٰ حضرت ابوہریرہ رضی ہللا تعال نے فرمایا: ناک خاک آلود ہوگئی پھرناک خاک آلود ہوگئی پھر ناک خاک آلود ہوگئی عرض کیا گیا اے ہللا کے رسول وہ کون آدمی ہے آپ صلی ہللا علیہ فسلم نے فرمایاجس نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا )ان کی خدمت کر کے( پھر جنت میں داخل نہ

ی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللاصلى الله عليه وسلم ٰ حضرت ابوہریرہ رضی ہللا تعال نے فرمایا: ناک خاک آلود ہوگئی پھرناک خاک آلود ہوگئی پھر ناک خاک آلود ہوگئی عرض کیا گیا اے ہللا کے رسول وہ کون آدمی ہے آپ صلی ہللا علیہ فسلم نے فرمایاجس نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا )ان کی خدمت کر کے( پھر جنت میں داخل نہ

)صحیح مسلم، باب : صلہ رحمی کا بیان جلد سوم حدیث

عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ہلل صلى الله عليه وسلمنے ٰ حضرت جریر رضی ہللا تعال ارشاد فرمایا:

جو آدمی نرمی اختیار کرنے سے محروم رہا وہ آدمی بھالئی سے محروم رہا۔ )صحیح مسلم ،باب : صلہ رحمی کا بیان جلد سوم حدیث2103)عنہ سے روایت ہے کہ ٰ حضرت انس بن مالک رضی ہللا تعال رسول ہللا صلى الله عليه وسلمنے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں

تک کہ وہ بالغ ہوگئیں میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے اور آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی انگلیوں کو مال کر بتایا۔ )صحیح مسلم ،باب : صلہ رحمی کا بیان جلد سوم حدیث2198)اسالم کی ان معاشرتی اقدار کے ذکر سے ہرگز یہ باور کروانا مقصود نہیں کہ مسلم معاشرے کے تمام افراد ان اقدار و روایات کے پابند ہیں۔ بلکہ مسلمانوں میں بھی عورتوں سے بدسلوکی کے واقعات ہوجاتے ہیں مگر وہ خالصتا اسالمی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ ہوتے ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا : بیواؤں اور مسکینوں کے کام آنے واال ہللا کے راستے میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے ، یا رات بھر عبادت اور دن کو روزے رکھنے والے کے برابر ہے Epsilon Theکے اکھٹے کردہ اعداد و شمار کے مطابق زنا بالجبر کا ایک بڑا محرک مرد و زن کا اخطالط ہے۔ اور اسالم کیتعلیمات میں مرد و زن کے بے روک ٹوک اخطالط سے ممانعت ہونے کی وجہ سے با عمل مسلمانوں کے معاشرے میں زنا سے متعلقہ جرائم سے عورتوں کو محفوظ رکھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ حیا کے قوانین مرد اور عورت دونوں کے لیے حرکت میں آتے ہیں۔ عورت پر گہری نگاہ ڈالنا بھی آداب و شریعت کے خالف ہے۔ جہاں تک حیا کا تعلق ہے تو اس کا مقصد صرف کمزور جنس کا دفاع ہی نہیں بلکہ قوی جنس کی روحانی نشونما کے لیے بھی اہم ہے۔ومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے۔اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش )یعنی زیور کے مقامات( کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھال رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اوربھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی )ہی قسم کی( عورتوں اور لونڈی غالموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں )غرض ان لوگوں کے سوا( کسی پر اپنی زینت )اور سنگار کے مقامات( کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں )ایسے طور سے زمین پر( نہ ماریں )کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور( ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فالح پاؤ

(24:30،31 القرآن)

Times York New The نے مئی 1993 میں ایک رپورٹ یہ رپورٹ 108 Better is Separationکے عنوان سے شائع کی۔ سوزین اوسٹر کی جانب سے شائع کی گئی تھی جو خود امریکہ کہ چند ایک ومن کالجز میں سے ایک کی گریجویٹ تھیں۔ امریکی یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وومن کالجز میں خواتین کے پڑھنے کا معیار زیادہ اچھا ہے بنسبت ان کالجز کے جہاں مخلوط نظام تعلیم

  • رائج ہے۔ اس نے اپنے دعوی کو مضبوط کرنے کہ لیے درج ذیل اعداد و شمار دیے۔
  • 1 -خواتین کے لیے مخصوص کالجز میں 80 ٪طالبات سائنس اور میتھ چار سال کے لیے پڑھتی ہیں بلمقابل مخلوط نظام تعلیم میں دو سال پڑھتی ہیں۔
  • 2 -طالبات کے لیے مخصوص اسکولوں میں طالبا ت کا GPA مخلوط تعلیم والے اسکولوں سے بہتر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی کے لیے بھی وہی طابات آگے آتی ہیں جو خواتین کے لیے مخصوص اسکولوں سے پڑھی ہوتی ہیں۔
  • 3 -Magazine Fortune Theا کے مطابق مریکہ کی ایک ہزار بڑی کمپنیز میں ہر تین میں سے ایک خاتون of Board Trustees کی رکن ایسے کالج سے گریجویٹ ہوتی ہے جو خواتین کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔

4 -میتھ میں پی ایچ ڈی رکھنے والی 43 ٪خواتین پروفیسرز اوور انجئنرنگ میں پی ایچ ڈی رکھنے والی 50 ٪خواتین پروفیسرز خواتین کے لیے مخصوص کالجز ہی سے گریجویٹ ہوتی ہیں۔یہ مغربی دنیا سے ایک اور دلیل ہے کہ مغرب کا اپنا میالن بھی اسالمی تعلیمات کے آفاقی اور عالمگیر ہونے کی طرف ہے جو انسانی رویوں کو ترتیب میں النے کا واحد راستہ ہے۔ ھندوستانی سیاستدان کوفی اللجاپا نے کہا :

کہ اسالم کے سوا کسی اور مذہب میں ایسی خوبی ہی نہیں کہ وہ جدید زندگی کے مسائل کو حل کرسکے۔ اسالم حقیقتا اس کے لیے 109 مناسب ترین ہے

مرد و زن کے درمیان علیحدگی کو پینٹاگون نے جنسی چھیڑ چھاڑ کی انسداد کے طور پر اپنارکھا ہے ،مگر اسالم کا نام لیے بغیر ، جو زندگی کا ایسا نظام متعارف کرواتا ہے جس سے امن و سالمتی نصیب ہوتی ہے۔ پرنس چارلز نے متعدد جگہ اس بات پر زور دیاہے کہ اسالم مغرب کے سنگین اخالقی انحطاط اور معاشرتی مسائل کا حل پیش کرتا ہے ، انہوں نے یہ بات اسالم اور مغرب کے عنوانات سے اپنی بے شمار تقاریر میں کہی ہے

ویلیم کوہن ، امریکن سیکرٹری آف ڈیفنس نے مرد و زنانہ فوجیوں میں اخالقی اقدار کی گراوٹ سے بچنے کے لیے پہلے مرحلہ کا اعالن کردیا ہے۔ اس مرحلہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ مخلوط عمارتوں کو مرد و زن کے علیحدہ علیحدہ حصوں

میں تقسیم کردیا جائے۔ ابھی یہ حل ابتدائی طور پر پیش کیا گیا ہے تب تک کہ جب تک مردو زن کے لیے علیحدہ علیحدہ نئی عمارتیں تعمیر نہیں ہوجاتی۔ بحری فوج نے بھی سخت ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ کوئی مرد یا زنانہ بحری افسیر اکھٹے بند کمرے میں موجود نہ ہوں۔ یہ وہ ہدایات ہیں جن کی پابندی ہر بحری فوجی پر الزم ہیں خصوصا جب وہ ڈیوٹی پر ہوں۔ سیکٹری آف ڈیفنس کے مطابق ان احکامات کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ دفاع سے متعلقہ لوگوں کو پوشیدگی اور سالمتی کا احساس فراہم کیا جاسکے۔ نیز اس بات پر بھی پابندی لگائی ہے کہ کوئی شخص انڈر وئر میں یا برہنہ نہیں سو سکتا اور سونے کے اوقات میں دروازے سختی س

بند رکھے جائیں۔ فحش فلموں کے دیکھنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی خصوصاخواتین کی موجودگی میں۔ اور اس بات پر بھی تفصیلی قواعد کا اعالن کیا ہے کہ تیراکی کے دوران یا سن باتھنگ کے 110 دوران کافی کپڑے پہنے جائیں۔

آج جو مسائل )جیسے، شراب نوشی ، منشایات، بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی( دنیا کو تباہی کی طرف لے کر جارہے ہیں ان کا واحد حل صرف اسالم ہی کی تعلیمات ہیں۔ جب بھی مسلمان

معاشروں میں مغربی افکار کا تسلط بڑھتا ہے تو معاشروں میں جرم بڑھتا اور جب کبھی اسالمی تعلیمات کا اثر کسی معاشرے پر پڑتا ہے تو جرائم کی شرح میں واضح کمی اور اقدارواخالق کی بلندی

حاصل ہوتی ہے۔1992 میں 271,847قیدی امریکی جیلوں میں قید تھے اور 1991 میں 7 ٪اضافہ ہوا اور حیران کن اضافہ 1980 میں 168 ٪ہوا۔ اسی دوران سنگین جرائم کی شرح میں 27 ٪ اضاف

1994کے گیلپ سروے کے مطابق 80 ٪امریکی سزایافتہ قاتلوں کی سزائے موت کے حق میں ہیں جبکہ 38 ریاستوں میں سزائے

موت رائج بھی ہے۔ مزید براں 60 جرائم ایسے ہیں جن میں سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ تقریبا 3000 امریکی سزائے موت کے منتظ