عالمگیریت اور رواداری
ہماری دنیا کی سب سے منفرد چیز جو ہے وہ ہے عقائد اور تہذیبوں میں تغیر۔اس لیے کسی بھی نظام کا عالمگیر ہونے کا اگر دعوی ہے تو اس کے لیے اہم ہے کہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کو برداشت
کرے اور یہ ایک ایسی شرط ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کتاب کے اس حصہ میں مختلف مذاہب اور نظریات کے تاریخی شواہد کو دیکھا جائے گا اوران کے رواداری کے رویہ کو اسالم کے نظریہ رواداری کے ساتھ رکھ کر پرکھا جائے گا۔ یوں تو یہودی عدم برداشت کا تذکرہ پہلی فصل میں میں کرچکا ہوں اس لیے اب میں عیسائیت سے شروع کرتا ہوں۔جس کے بارے میں بعض کا مسیح علیہ السالم کی روادری کے بارےمیں دعوی ہے مگر جب
ہم تاریخ میں اس کا اطالق اٹھا کر دیکھتے ہیں تو نتائج یکسر مختلف نظر آتے ہیں ۔ اس سے باال تر کہ یہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات کا آغاز ہللا کے برگزیدہ اور حلیم پیغمبروں کے ہاتھوں پر ہوا مگر
وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزوں کا ان کی اصل تعلیمات کے ساتھ اٖضافہ کردیا گیا جو کبھی ان کا حصہ تھیں ہی نہیں۔
1 -صلیبیوں کا فلسطین میں رویہ:
آئیے صلیبیوں کے اس طرز عمل پر نظر دوڑاتے ہیں جو انہوں نے فتح یروشلم اورمسلمانوں کے خالف علم جنگ بلند کر کے اپنایا ۔ ان جنگوں کو مقدس جنگیں تصور کیا جاتا تھا جو پوپ کی برکتیں حاصل کر کے عیسائیت کے جھنڈے تلے لڑی جاتی تھیں ۔
یروشلم کا ایک مہینہ تک محاصرہ کیا گیا ۔ یروشلم میں رہنے والوں نے بہت بہادری سے انکا مقابلہ کیا مگر جب صلیبیوں کو فتح ہوئی تو وہ گلیوں میں داخل ہوئے اور جو چیز ان کو نظر آئی اسے قتل
کردیا، تباہ کردیا یا جالدیا۔ انہوں نے مردوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم کرنے میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔یہ قتل عام ساری رات جاری رہا۔ جمعہ، 15 جون 1099،صلیبیوں نے مسجد االقصی کا دروازہ توڑ دیا اور وہاں پناہ لینے والے سب لوگوں کوقتل کردیا۔ ابن کثیر نے اپنی کتاب الکامل میں قتل عام کا تذکرہ یوں کیا ہے۔
صلیبیوں نے ستر ہزار سے زائد لوگوں کو قتل کیا۔ ان میں سے بعض علماء، فاضلین اور وہ دانا حضرات تھے جو اپنے اپنے
عالقوں کو چھوڑکر اس مقدس مقام میں رہنے کو یہاں شریف الئے تھے۔ صلیبیوں نے مقدس مقامات سے چاندی کے چالیس کے قریب قیمتی فانوس چورائے ، اس ایک کی قیمت چھتیس سو چاندی کے درھم تھی۔
اپنی کتاب ، دی عرب سویالئزیشن میں ، فرانسیسی گستیو لی بان نے صلیبیوں کا یروشلم میں داخل ہونا یوں بیان کیا ہے۔
صلیبیوں کا یروشلم میں داخل ہونے کا طریقہ متحمل خلیفہ عمر ابن الخطاب سے بہت مختلف تھا کہ جب وہ عیسائیوں پر اسی شہر میں 28 کچھ صدیاں پہلے داخل ہوئے تھے
بلول شہر کے پادری، ریمنڈ ڈیگائل نے تاریخ میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔
جب ہمارے لوگوں )عیسائیوں ( نے یروشلہم کے درو دیوار کو فتح کیا تو عرب کے ساتھ جو ہوا وہ پریشان کن ہے۔ بعض مسلمانوں کے سر کاٹ دے گئے اور بعضوں کو شدید زخمی کیا گیا تاکہ وہ اپنے آپ کو دیواروں سے نیچے لے آئیں، کچھ کو زندہ جال دیا گیا۔ اس روز یروشلم کی ہر سڑک پر مسلمانوں کے کٹے سر، ٹانگیں اور ہاتھ تھے یہاں تک کہ اس روز الشوں پہ نہ چلنا محال تھا۔ یہ صرف 29 ایک نمونہ ہے کہ اس روز کیا ہوا تھا
خلیل توطہ اور بولوس شہادہ )دونوں عیسائی لکھاری ہیں(نے اس قتل عام پر یوں لکھا ہے
صلیبیوں نے اس جگہ جہاں یسوع کو مصلوب کیا گیا اور دفنایا گیا ، جو ظلم کیا وہ شرم ناک ہے اور گناہ ہے۔یسوع نے تو سیکھایا تھا کہ اپنے دشمنوں سے محبت کرو۔ صلیبیوں نے کہ جن کے پیش نظر مقدس صلیب تھی انہوں نے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو قتل
کیا۔یہاں تک کہ جو لوگ اقصی کی طرف چلے گئے تھے تو گوڈ فرے نے ان کا پیچھا کیا ۔ گوڈفرے تو مقدس ٹومب )مقبرہ( کا محافظ تھا۔ اور جب وہ جاوا میں مصریوں سے برسرپیکار تھا تو اس نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ اسے واپس یروشلم لے جایا جائے جہاں بعد میں اس کا انتقال ہوگیا۔ وہ نیٹیوٹی چرچ میں دفن کیا گیا
بدقسمتی سے صلیبی جنگیں ماضی بعید کی باتیں نہیں ہیں جیساکہ کوئی شخص مغالطہ کا شکار ہوسکتا ہے۔ یہ آج بااثر عیسائیوں کے ذریعے جاری ہیں ۔ یہودیوں اور مسلمانوں کی ان خونریزجنگوں سے وابستہ نہایت تلخ یادیں ہیں۔ ماضی میں اور دور حاضر میں
مشنریوں کا لوگوں کو بہکا کر عیسائی کرنا بھی صلیبی جنگ سمجھا جاتا ہے۔سیاسی رہنما دوسری قوموں سے اپنے دہرے رویے کو بھی صلیبی جنگ سمجھتے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں یہ کہ عیسائیوں کا دوسروں کو برداشت کرنا ان کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ یہ ناانصافی ہوگی کہ اگر انبیاء )علیھم السالم( کی اصل تعلیمات کا انکار کر دیا جائے۔ انہوں نے تو برداشت اور رواداری سیکھائی بھی اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ وہ ہدایت اور رہنمائی الئے تھے۔ تاہم ان کی تعلیما ت میں سنگین رد و بدل کے نتیجہ میں صلیبی جنگیں، غالمی ، نسلی و لسانی امتیاز، نو آبادکاری اور دوسرے لوگوں کے ساتھ منافقانہ طرز اپنانے جیسے کام ہوئے۔
ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچایا جائے گا اور نہ ہی ان پر ان کی مرضی کے خالف مذہب تبدیل کرنے پر کوئی جبر کیا جائے گا۔ ہللا اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی نگرانی میں ،یہ ضمانت خلیفہ اور تمام مسلمانوں کی طرف سے ہے ۔ تب تک کہ دوسری طرف سے معاہدے کی پابندی رہے اور وہ جزیہ دیتے رہیں۔ فی الحقیقت یہ عمر ہی تھے جنہوں نے پہلی بار رومیوں کے غلبہ سے یروشلم کو آزاد کروایا تھا۔