عالمگیریت اور سائنس کا فروغ
کتا ب کے اس حصہ میں ہم دو باتوں کا جائزہ لیں گے ایک تو عصر حاضر میں رائج زندگی گزارنے کے طور اطوار اور دوسرا اس بات کی تحقیق کریں گے کہ کون سا نظام زندگی ترقی اور بہتر
کتا ب کے اس حصہ میں ہم دو باتوں کا جائزہ لیں گے ایک تو عصر حاضر میں رائج زندگی گزارنے کے طور اطوار اور دوسرا اس بات کی تحقیق کریں گے کہ کون سا نظام زندگی ترقی اور بہتر
معیار زندگی کا مددگار ہے۔اس سے ہمیں اس بات کو سمجھنے میں بھی مدد ملی گی کہ کون سا نظام زندگی ترقی اور تمدن کی راہ میں رکاوٹ ہے یا کون سا نظام زندگی اخالقیات اور اقدار کے فروغ کو ترجیح نہیں دیتا کہ جس سے انسان کی معاشرتی اور نفسیاتی بھالئی
مشروط ہے۔ اگر ہم عالمگیر نظام کی کامیابی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرے اور ان کو متوازن کرے تاکہ انسان کا دماغ افراط و تفریط سے محفوظ رہے
1 -بدھ ازم، ھندو ازم اور سائنس :
اگر ہم بدھ ازم کو نظام زندگی کے طور پر جانچتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصال د بدھ ازم کا مطلب ہے کہ مکمل طور پر وقف ہو کر مورت کی پوجا پاٹ کی جائے اور اپنا سارا وقت تنہائی
اور اردگرد کی دنیا سے الگ ہوکر گزارا جائے، جو مکمل طور پر زیادتی ہے۔ آدمی کو بدھ ازم کے مطابق برائی کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر وہ راستبازی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اس دنیا سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہے۔ اس طرح کا فلسفہ اپنے پیروکاروں کے لیے کبھی بھی دلی سکون کا باعث نہیں بن سکتا۔
ھندو ازم اور بدھ ازم دونوں مذاہب میں اس دنیا کو برا سمجھا جاتا ہے اور نجات کا واحد راستہ اس دنیا سے الگ تھلگ ہونے میں مضمر ہے۔ مزید براں یہ دونوں مذاہب شخصی نجات کا تصور پیش کرتے ہیں اسی لیے وہ اس کی تعریف شعور کی ایک خاص حالت کے طور پر کرتے ہیں، جو کہ صرف ذاتی ہی ہو سکتی ہے۔ 53 بیرونی دنیا سے میل مالپ کو برائی تصور کیا جاتا ہے
ھندوؤں کی طرف سے ریاست، تمدن یا کوئی خاص انسانی کمیونٹی کے لئے جو بھی نظام متعارف کروایا گیا ہے وہ اپنی مذہبی تعلیمات سے بے اعتنائی برت کر ہی ترتیب دیا گیا ہے۔ ھندو سیاسی جماعتوں کا ھندوستان کی سیاسیت میں بڑا اثر و رثوق ہونے کے باوجود ھندوستا ن کا نظام حکمرانی جہوریت ہے
میرے مطابق زندگی کے متعلق ایسے نظریات رکھنے واال نظام ہماری آج کی دنیا کے قابل نہیں ہوسکتا کہ جہاں ٹیکنولوجی ہماری زندگیوں کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعتی ترقی کی وجہ سے ہمارے معاشرے اور صحت کے میدان میں نا چاہے اثرات نموندار ہورہے ہیں۔ ایک جدید دوہرے تمدن کا معاشرہ دوسری حد پر ہے کہ جو انسان کو ہر سطح پر بے روک
آزادی دیتا ہے چاہے وہ لوگوں سے متعلقہ ہو یا قدرت سے وابستہ ہو۔ اس کا اندازہ جنیات اور ماحولیات کے میدانوں میں تباہی کا مشاہدہ کر کے لگایا جاسکتا ہے۔ متجددین کی آنکھوں پر مادیت کی پٹی ایسی بندھی ہے کہ جس نے اخالقی، معاشرتی اور حفظان صحت کے معامالت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور انسانیت کو ناقبل تسخیر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہمیشہ مادی فوائد والے حل ہی پیش کیے گئے ہیں جو شاید ہی کبھی کامیاب ہوئے ہوں۔
ایڈز، کینسر، غربت، ناخواندگی، نشہ اور شراب کا استعمال اور دیگر معاشرتی مسائل شدید تیزی سے پنپنے لگے ہیں۔ اقدار اور اخالقیات کو داؤ پر لگا کر مادی فوائد حاصل کرنا اب مقصد حقیقی بن گیا ہ
کو داؤ پر لگا کر مادی فوائد حاصل کرنا اب مقصد حقیقی بن گیا ہے۔ تاہم دنیاوی معامالت سے ہر طرح کی بے اعتنائی برت لینا بھی انسانی فطرت کے خالف ہے۔ ان حاالت میں ایک ایسے نظام کی شدید ضررورت ہے کہ جو نہ تو ایک اللچی مادہ پرست اقلیت کا نظام ہو اور نہ ہی غیر فطری طور سے دنیا سے بلکل ہی الگ تھلگ کرنے کا نظریہ رکھنے واال نظام ہو بلکہ انسان کی سائنسی اور تکنینی ضروریات میں توازن برقرار رکھنے واال ایک متوازن نظام زندگی ہو۔
پینے کی حالل چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ
یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے(7:32-31 القرآن)
ایسا کوئی بھی نظام جو انسانی ضرورت سے وابستہ سائنسی اور تکنینی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے وہ اس قابل نہیں ہوسکتا کہ اس کو عالمگیر نظام زندگی کے طور پر اپنایا جائے۔ اسالم اس معاملے میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے کیونکہ اسالم ہر میدان میں علم و ترقی کے دروازے ہمیشہ کھلوے رکھتاہے۔ مسلمان تب تب سائنس کے میدان میں ترقی نہیں کرتے جب جب وہ اسالمی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ مستشرقین اور نوآبادکاروں نے اس حقیقت کو دریافت کیا اور مسلمانوں کو ترقی کے حقیقی ذرائع سے بدحواس کردیا۔ بہت سے مورخین نے ایسے حقائق کو نوٹ کیا جن میں فلپ ہٹی نے الخوارزمی )میتھ ،حساب کے ایک نامور مسلم سکالر(کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ:
سائنسئ اذہان میں سے ایک سب سے ذہین شخص الخوارزمی ایسا شخص ہے کہ جس نے بال شک و شبہ قرون وسطی میں حساب کے 54 میدان میں سب سے زیادہ اثر ڈاال ہے
ایک فرانسسی سائنسدان ایم چارلز، ایک اور مسلم ریاضی دان بنام البطانی کے بارے کہا کہ:
البیطانی ہی وہ پہلے ریاضی دان تھے جنہوں نے sineاور cosineکو اپنے کام میں متعارف کروایا۔ انہوں نے جیومٹرک کیلکولس کو بھی متعارف کروایا اور اس کو shadow extended کا نام دیا۔ بعد ازاں جدید ٹرگنومٹری میں اس کو tangent کہا 55 جانے لگا۔
مورخین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جدید سائنس مسلمانوں کی سائنس کے مختلف میدانوں میں کی جانے والی ایجادات کی مقروض ہے۔ جیسے اسفو ریل )1846 )نے لکھا :
دو تہذیبوں کا تعلق ، عیسائیت اور مسلمان، دو راہداریوں کی وجہ سے قائم ہوا۔ ایک راستہ تو عمومی تھا اور دوسرا غیر معمولی ۔ یعنی ایک تجارت کا اور دوسرا زیارت )و حج ( کا ، جس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ گیارہویں صدی سے پہلے مشرق اور مغرب کے درمیان آمدو رفت اپنے عروج پر تھی۔ یہ سپین تھا اور جنوبی 56 فرانس کہ جہاں سے سیدھا اسالمی تہذیب یورپ میں داخل ہوئی