عالمگیریت اور سائنس کا فروغ

کتا ب کے اس حصہ میں ہم دو باتوں کا جائزہ لیں گے ایک تو عصر حاضر میں رائج زندگی گزارنے کے طور اطوار اور دوسرا اس بات کی تحقیق کریں گے کہ کون سا نظام زندگی ترقی اور بہتر

کتا ب کے اس حصہ میں ہم دو باتوں کا جائزہ لیں گے ایک تو عصر حاضر میں رائج زندگی گزارنے کے طور اطوار اور دوسرا اس بات کی تحقیق کریں گے کہ کون سا نظام زندگی ترقی اور بہتر

معیار زندگی کا مددگار ہے۔اس سے ہمیں اس بات کو سمجھنے میں بھی مدد ملی گی کہ کون سا نظام زندگی ترقی اور تمدن کی راہ میں رکاوٹ ہے یا کون سا نظام زندگی اخالقیات اور اقدار کے فروغ کو ترجیح نہیں دیتا کہ جس سے انسان کی معاشرتی اور نفسیاتی بھالئی

مشروط ہے۔ اگر ہم عالمگیر نظام کی کامیابی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرے اور ان کو متوازن کرے تاکہ انسان کا دماغ افراط و تفریط سے محفوظ رہے

1 -بدھ ازم، ھندو ازم اور سائنس :

اگر ہم بدھ ازم کو نظام زندگی کے طور پر جانچتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصال د بدھ ازم کا مطلب ہے کہ مکمل طور پر وقف ہو کر مورت کی پوجا پاٹ کی جائے اور اپنا سارا وقت تنہائی

اور اردگرد کی دنیا سے الگ ہوکر گزارا جائے، جو مکمل طور پر زیادتی ہے۔ آدمی کو بدھ ازم کے مطابق برائی کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر وہ راستبازی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اس دنیا سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہے۔ اس طرح کا فلسفہ اپنے پیروکاروں کے لیے کبھی بھی دلی سکون کا باعث نہیں بن سکتا۔

ھندو ازم اور بدھ ازم دونوں مذاہب میں اس دنیا کو برا سمجھا جاتا ہے اور نجات کا واحد راستہ اس دنیا سے الگ تھلگ ہونے میں مضمر ہے۔ مزید براں یہ دونوں مذاہب شخصی نجات کا تصور پیش کرتے ہیں اسی لیے وہ اس کی تعریف شعور کی ایک خاص حالت کے طور پر کرتے ہیں، جو کہ صرف ذاتی ہی ہو سکتی ہے۔ 53 بیرونی دنیا سے میل مالپ کو برائی تصور کیا جاتا ہے

ھندوؤں کی طرف سے ریاست، تمدن یا کوئی خاص انسانی کمیونٹی کے لئے جو بھی نظام متعارف کروایا گیا ہے وہ اپنی مذہبی تعلیمات سے بے اعتنائی برت کر ہی ترتیب دیا گیا ہے۔ ھندو سیاسی جماعتوں کا ھندوستان کی سیاسیت میں بڑا اثر و رثوق ہونے کے باوجود ھندوستا ن کا نظام حکمرانی جہوریت ہے

میرے مطابق زندگی کے متعلق ایسے نظریات رکھنے واال نظام ہماری آج کی دنیا کے قابل نہیں ہوسکتا کہ جہاں ٹیکنولوجی ہماری زندگیوں کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعتی ترقی کی وجہ سے ہمارے معاشرے اور صحت کے میدان میں نا چاہے اثرات نموندار ہورہے ہیں۔ ایک جدید دوہرے تمدن کا معاشرہ دوسری حد پر ہے کہ جو انسان کو ہر سطح پر بے روک

آزادی دیتا ہے چاہے وہ لوگوں سے متعلقہ ہو یا قدرت سے وابستہ ہو۔ اس کا اندازہ جنیات اور ماحولیات کے میدانوں میں تباہی کا مشاہدہ کر کے لگایا جاسکتا ہے۔ متجددین کی آنکھوں پر مادیت کی پٹی ایسی بندھی ہے کہ جس نے اخالقی، معاشرتی اور حفظان صحت کے معامالت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور انسانیت کو ناقبل تسخیر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہمیشہ مادی فوائد والے حل ہی پیش کیے گئے ہیں جو شاید ہی کبھی کامیاب ہوئے ہوں۔

ایڈز، کینسر، غربت، ناخواندگی، نشہ اور شراب کا استعمال اور دیگر معاشرتی مسائل شدید تیزی سے پنپنے لگے ہیں۔ اقدار اور اخالقیات کو داؤ پر لگا کر مادی فوائد حاصل کرنا اب مقصد حقیقی بن گیا ہ

کو داؤ پر لگا کر مادی فوائد حاصل کرنا اب مقصد حقیقی بن گیا ہے۔ تاہم دنیاوی معامالت سے ہر طرح کی بے اعتنائی برت لینا بھی انسانی فطرت کے خالف ہے۔ ان حاالت میں ایک ایسے نظام کی شدید ضررورت ہے کہ جو نہ تو ایک اللچی مادہ پرست اقلیت کا نظام ہو اور نہ ہی غیر فطری طور سے دنیا سے بلکل ہی الگ تھلگ کرنے کا نظریہ رکھنے واال نظام ہو بلکہ انسان کی سائنسی اور تکنینی ضروریات میں توازن برقرار رکھنے واال ایک متوازن نظام زندگی ہو۔

2-اسالم اور سائنس:

سالم نے اس دوہری کشمکش کا انتہائی معتدل راستہ دکھایا ہے۔ انسان کو اس بات سے نہیں روکا گیا کہ وہ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو چہ جائے کہ دوسروں کے حقوق کی پامالی ہوتی ہو۔

اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک ہللا حد سے نکل جانےکے پیدا کئے ٰ والوں کو پسند نہیں کرتا۔آپ فرمائیے کہ ہللا تعال ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے

پینے کی حالل چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ

یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے(7:32-31 القرآن)

ایسا کوئی بھی نظام جو انسانی ضرورت سے وابستہ سائنسی اور تکنینی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے وہ اس قابل نہیں ہوسکتا کہ اس کو عالمگیر نظام زندگی کے طور پر اپنایا جائے۔ اسالم اس معاملے میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے کیونکہ اسالم ہر میدان میں علم و ترقی کے دروازے ہمیشہ کھلوے رکھتاہے۔ مسلمان تب تب سائنس کے میدان میں ترقی نہیں کرتے جب جب وہ اسالمی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ مستشرقین اور نوآبادکاروں نے اس حقیقت کو دریافت کیا اور مسلمانوں کو ترقی کے حقیقی ذرائع سے بدحواس کردیا۔ بہت سے مورخین نے ایسے حقائق کو نوٹ کیا جن میں فلپ ہٹی نے الخوارزمی )میتھ ،حساب کے ایک نامور مسلم سکالر(کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ:

سائنسئ اذہان میں سے ایک سب سے ذہین شخص الخوارزمی ایسا شخص ہے کہ جس نے بال شک و شبہ قرون وسطی میں حساب کے 54 میدان میں سب سے زیادہ اثر ڈاال ہے

ایک فرانسسی سائنسدان ایم چارلز، ایک اور مسلم ریاضی دان بنام البطانی کے بارے کہا کہ:

البیطانی ہی وہ پہلے ریاضی دان تھے جنہوں نے sineاور cosineکو اپنے کام میں متعارف کروایا۔ انہوں نے جیومٹرک کیلکولس کو بھی متعارف کروایا اور اس کو shadow extended کا نام دیا۔ بعد ازاں جدید ٹرگنومٹری میں اس کو tangent کہا 55 جانے لگا۔

مورخین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جدید سائنس مسلمانوں کی سائنس کے مختلف میدانوں میں کی جانے والی ایجادات کی مقروض ہے۔ جیسے اسفو ریل )1846 )نے لکھا :

دو تہذیبوں کا تعلق ، عیسائیت اور مسلمان، دو راہداریوں کی وجہ سے قائم ہوا۔ ایک راستہ تو عمومی تھا اور دوسرا غیر معمولی ۔ یعنی ایک تجارت کا اور دوسرا زیارت )و حج ( کا ، جس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ گیارہویں صدی سے پہلے مشرق اور مغرب کے درمیان آمدو رفت اپنے عروج پر تھی۔ یہ سپین تھا اور جنوبی 56 فرانس کہ جہاں سے سیدھا اسالمی تہذیب یورپ میں داخل ہوئی

گیارہویں صدی کے وسط ہی میں اسالمی تہذیب سپین میں غلبہ حاصل کر چکی تھی۔ ہسپانوی سائنس اور ادب تک رسائی کے لیے صرف عربی کو ہی واحد زریعہ سمجھتے تھے۔ یہ اتنی اہم تھی کہ

کلیسا کے عہدہداران نے شرعی فتاوی و وقوانین کو قدیم رومی زبان میں ترجمہ کیا کیوں کہ مسلم سپین میں صرف دو ہی زبانیں رائج تھیں۔ عیسائی سپین نے مسلمانوں کی اس عظمت کا اعتراف کیا۔ تقریبا 830 میں ایل فونس دی گریٹ، کنگ آف آسٹرینز نے دو

ہسپانوی مسلم سکالرز کو اپنے بیٹے اور بھتیجے کی تعلیم پر معمور کیا۔ قرآن بائبل اور جدید سائنس میں لمبی اور گہری تقابلی تحقیق کے بعد، نامور فرانسیسی سائنسدان اور فرنچ سائنٹیفک اکیڈمی کے رکن نے قرآن اور ان نئی دریافتوں میں کسی قسم کا کوئی ٹکراؤ نہیں پایا۔ بلکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن ان دیکھی دنیا کے احوال کو بلکل درست انداز میں بیان فرماتا ہے۔

قرآن سے پہلے دو کالم وحی اور بھی ہیں مگر قرآن تضادات سے پاک ہے۔ انجیل میں انسانی رد و بدل پائی گئی ہے۔ اور قرآن اپنی خوبیا ں ان پر منکشف کرتاہے جو اس کو حقائق کی بنیا د پر اور سائنس کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ مراد اس کا جدید سائنسی معلومات سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ مزید براں کہ اس میں بعض ایسے جملے پائے جاتیں کہ جن کا تعلق سائنس سے ہے اور اس بات کا

تصور کرنا بھی محال ہے محمد )صلى الله عليه وسلم( کے دور میں بیٹھ کر کوئی شخص ان کو تصور بھی کر سکتا ہے۔ تاہم جدید سائنس کی بدولت آج ہم قرآن کی بہت سی آیات کو زیادہ اچھے سے سمجھ سکتے ہیں 57 جن کی تشریح اب تک ناممکن تھی

3 -مسلمانوں کے علوم کا یورپ پر اثر:

سائنس کے میدان میں مسلمانوں کا نام دور دراز تک پھیال ہوا تھا۔ اور سائنسی میدان کے مغربی اذہان کو اندلس، سسلی اور جنوبی اٹلی کی طرف متوجہ کرتا تھا۔ اسی قرون وسطی کے دور میں جب مسلمانوں کی تہذیب عروج پر تھی تو دوسری طرف عیسائی دنیا

مکمل طور پر سیا ہ اور تاریک دور سے گزر رہی تھی۔)ڈارک ایجز(۔ فلپ ہٹی لکھتے ہیں:کسی قوم نے انسانیت کی ترقی میں اس قدر اپنا کردار ادا نہیں کیا جتنا کہ عرب اقوام نے اداکیا ہے۔ اس سےمرادیہ صرف جزیرہ نما عرب ہی نہیں بلکہ ہر وہ قوم جس کی مادری زبان عربی ہے۔ کیونکہ صدیوں تک متمدن دنیا میں عربی ہی سیکھنے سکھانے ، تعلیم و تدریس، تمدنی اور ذہنی ترقی کی زبان رہی ہے سوائے مشرق بعید ۔ نویں اور بارہویں صدی میں فلسفہ، طب، تاریخ، مذہب، جغرافیہ اور علم فلکیات کے میدانوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ 58 عربی زبان سے زیادہ کسی اور زبان میں نہیں لکھا گیا۔

مسلمانوں ہی کی سائنس اور علوم کی ترویج میں کی گئی ترقی کی بدولت آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے یہاں تک ترقی کی ہے۔ الندوی نے اس پر یوں تبصرہ کیا ہے:

مسلمانوں کے اسالمی اور سائنسی اثر ہی کی بدولت یورپ میں آج علم کا طوفان بپا ہے۔ یورپ کے مفکرین اور سائنسدانوں نے ذہنی قید کی بندشوں کو توڑا۔ اور انہوں نے زور بازو پر مابعدالطبعیات کے نظریا ت کی نفی کردی جبکہ ان کے دالئل بھونڈے تھے اور اپنی تحقیقات کا پرچار کرنے لگے۔ جوابا پاپائیت نے ظلم اور جبر روا 59 رکھا۔ انہوں نے بدعتیوں کے تعین کے لیے، ان کو کتاب پر واپس النے کے لیے گھروں ، غاروں ، گلیوں ، کھیتھوں میں گھاتیں لگائیں۔ اس روش نے اپنا اثر اس وحشی انداز میں دکھایا کہ ایک عیسائی ماہر علم الہیات یہ پکار اٹھا کہ آدمی کا اب عیسائی رہنا ممکن نہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق 1481 سے لے کر 1801 تک

اس وحشی روش نے چالیس ہزار تین سو لوگوں کو سزا ئیں دی۔ جن میں سے بتیس ہزار کو زندہ جالیا گیا۔ جن میں نامور سائنسدان برونو ہے جس کا جرم یہ تھا کہ وہ worlds the of plurality کی تعلیم دیتا تھا۔برونوں کو سیکیولر حکمرانوں کے پاس نرم ترین سزا کے لیے بھیجا گیا کہ جس میں خون نہ بہئے، جو درحقیقت زیادہ قبیح طریقہ ہے یعنی جالنا۔ گلیلو ایک اور بڑا سائنسدان جو کتاب کے مخالف اس بات کا پرچار کرتا تھا کہ زمین سورج کے گرد چکر 60 لگاتی ہے، اس کو بھی سزا دی گئی

ڈریپر کے مطابق اس کی کتاب between conflict of history science and religion میں کلیسا کی ذہنی جمود اور اس کی عدالتوں کے جبر نے یورپ کے قابل ذکر طبقہ کو نا صرف چرچ اور پاپائیت کے خالف علم بغاوت بلند کرنے پر اکسیا بلکہ انہوں نے اس حق سے بھی انکار کر دیا جو کلیسا کی شرارت سے ابھی تک 61 محفوظ تھ

4 -جدید سائنس کی سطحیت:

سائنس کے علوم جو اسالم نے مغرب کو دیے وہ زیادہ تر ہللا کی تعلیمات کے مطابق تھے۔ تاہم چودہ صدیوں سے مغربی معاشرت نے اسالمی سائنسئ روایت سے انحراف ہی کیا ہے۔ اسالم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگ اس بات کاخیال کریں کہ وہ جو بھی

سائنسی ایجاد کریں گے وہ لوگوں کے حق میں فائدہ مند ہو اور قدرت کو نقصان پہنچانے والی نہ ہو۔ اسالم ایک اور بات کا تقاضا کرتا ہےاور وہ یہ ہے کہ سائنس کو خدا نہ سمجھا جائے۔ اس کی بہت سیدھی وجہ یہ ہے کہ ہمارا علم محدود ہونے کے ساتھ ساتھ اندازہ اور قیاس پر مبنی ہوتا ہے اسی لیے ہماری سائنس بھی محدود ہے۔ محمد قطب لکھتے ہیں:

سائنس کا خدا انتہائی ناپائدار ، رخ بدلتا اور ہمیشہ اپنے مقام سے پھرتا ہے۔ اور جس چیز کو آج حقائق اور اٹل حقیقت کے طور پر پیش کر رہا ہے کل ہی اس کا رد کر کے اسے غلط قرار دے دیتا ہے۔ نتیجہ اس کے چاہنے والے ہمیشہ بے سکونی اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔ وہ ایسے مکار خدا کے ہوتے ہوئے ذہنی سکون کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ جدید مغرب اسی کشمکش اور بے چینی کا شکار ہے جس کی وجہ سے جدید معاشرت میں نفسیاتی بیماریوں کا سیالب امنڈ آیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا:جدید سائنس کی ان خرابیوں کی وجہ سے ایک نتیجہ اور نکال ہے اور وہ یہ ہے کہ جدید دنیا میں رہنے والوں کی زندگی بے مقصد ہوگئی ہے۔قوتوں کے درمیان ٹکراؤ اور بے چینی ہی آج کا قانون بن 62 گیا ہے۔ نتیجہ اس دنیا کی ہر چیز تبدیل ہورہی ہے

سائنس کے بے جا استعمال نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ہے جیسے سیاسی ، معاشی ، تعلیمی ، صحت بلکہ یہاں تک کے سائنسی حقائق کی دنیا کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ سب معامالت انسان کو ایک ایسے نظام کی تالش کے لیے ابھارتے ہیں کہ جہاں وہ سکون، امن اور تضادات سے آزادی حاصل کرسکے۔

بے قابو سائنس کی ایک مثال پورے امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے بارے میں تعصب ہے۔ جھوٹے سائنسی تعصب اور الطینی امریکیوں میں سماجی انجئنئرنگ کے خیاالت ،جنہیں سفید حلقوں نے سیاہ فام لوگوں کی قبولیت کا جز وقرار دینے کی کوششکی۔فرانسسی فلسفی آگسٹ کوم کے پیروکاروں نے اس بات کو محسوس کیا کہ افریکی لوگوں کو جدید تکنیی منہج سے دور رکھ کر انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ڈارون کے سماجی نظریہ کو مانے والوں کے نزدیک سیاہ فام لوگ سماج میں بنیادی طور پر کمزوری کا نشان ہیں اور وہ گوروں کو قدرتی طور پر برتر تصور کرتے ہیں

5 -اسالم سائنس اور ترقی کا حامی کیوں ہے؟

ایسا کیوں ہے کہ اسالم ہی وہ واحد نظام زندگی ہے جو انسانی زندگی میں ترقی اور اردگرد کی دنیا میں کھوج کو ترویج دیتا ہے؟ وہ تخصص جو اسالم کو دیگر ادیان سے ممیز کرتا ہے اس کی وجہ سے گب )ایک نامور مستشرق( نے لکھا ہے:

کوئی بھی گروہ جو ایک معاشرہ تخلیق کرتا ہے اس کا دارومدار اس کے بنیادی عقائد پر ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک کائنات ، قدرت اور اس کے اندر روح کا مقصد کیا ہے۔ یہ ایک بہت عام تعلیم ہے جس کا ہر ہفتہ بعد مسیحی سٹیج سے پرچار کیا جاتا ہے۔ لیکن اسالم وہ واحد مذہب ہے جس نے مسلسل اس اصول کو اپنائے رکھا اور اس پر ایک معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد جاری رکھی۔ جس کا سب 64 سے قوی آلہ شریعت ہے

اسالم ہی وہ واحد مذہب کیوں ہے جو انسانیت کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے اور اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتا ہے؟ یہ اس لیے کہ اسالم ہی تمام مذاہب اور نظریات میں سے وہ واحد مذہب ہے جو حقیقتا واحدانیت کی طرز زندگی پیش کرتا ہے۔ جبکہ وہ خدا کی تجسیم پر زور دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو ٹھیک سمجھ بیٹھے ہیں کہ تضاد علم کا بنیادی جزو ہے۔ نتیجہ ایک ہزار سال سے زائد کے عرصہ میں جب عیسائیت کو لوگوں کے دل و دماغ پر حکومت کا موقع مال تو کوئی سائنسی ترقی نہیں

ہوئی۔عیسائی، ھندو، بدھی وغیرہ وغیرہ سائنسی طرز اختیار نہیں کرسکے یہاں تک کہ اسالم نے انہیں کئی خداؤں کی پرستش سے نہ تو 65 آزاد کیا، جو کہ ان پر مذہبی مجاوروں نے عائد کررکھی تھی۔ عیسائیت اور نہ ہی ھندو ازم یا بدھ ازم اپنے پیروکار وں کو سائنسی تخلیقی سوچ اپنانے پر ابھار سکا۔ اور جیسے ہی وہ مسلمان ہوئے اور ایک خدا تعالی کی عبادت کرنے لگے تو وہ اس دور کے عرب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عظیم سائنسدان اور دانش ور بن گئے

مسلمان ان خصوصیات کو جو سائنسئ تخلیقی سوچ اور فکر کے

لیے ضروری ہوتی ہیں اپنانے میں کامیاب دو وجوہات کی بنیاد پر ہوئے۔ اول قرآن پاک اور دوم نبی اکرمصلى الله عليه وسلم کی سنت نے انہیں اپناندر اور اردگرد کی دنیا کے بارے میں جاننے اور کھوج لگانے کے لیے ابھارا۔

  • بےشک خدا غالب )اور( بخشنے واال ہے (35:28 القرآن)
  • کہو بھال جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ )اور( نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں۔ (39:9القرآن)
  • ٹھ کھڑے ہو تو خدا تم کو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اُ ٹھ ا کھڑے ہوا کرو۔ جو لوگ تم میں سے ایمان الئے ہیں اور جن کو ُ علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔ (58:11 القرآن)
  • بھال یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا )کالم( ہوتا تو اس میں )بہت سا( اختالف پاتے۔ (4:82 القرآن)
  • کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں التے؟ (21:30 القرآن)

ہم عنقریب ان کو اطراف )عالم( میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ )قرآن( حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے۔

(41:53 القرآن)

ایسی بہت سی نشانیاں قرآن میں مذکور ہیں جنہیں بعد میں سائنسدانوں نے اپنے علم اور تحقیق کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دریافت کیا۔ مندرجہ ذیل آیت میں جس نشانی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ سائنسدانوں کے لیے ایک بڑی چیز ہے۔ یا )ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے( جیسے دریائے عمیق میں اندھیرے جس پر لہر چڑھی چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر )آرہی ہو( اور اس کے اوپر بادل ہو، غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، ایک پر ایک )چھایا ہوا( جب اپنا ہاتھ نکالے تو کچھ نہ دیکھ سکے۔ اور جس کو خدا روشنی نہ دے اس کو )کہیں بھی( روشنی نہیں )مل سکتی(۔

(24:40 القرآن)

صفحہ نمبر 67 پر ڈائگرام یہاں آئے گی۔قرآن کی اس آیت میں گہرے سمندر کے اس اندھیرے کا ذکر کیا جس میں اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ بھی دیکھنا چاہے تو نہیں دیکھ سکتا۔ ایسی اندھیر سیاہی تقریبا دو سو میٹر اور اس زیادہ کی گہرائی میں دیکھی جاتی ہے۔ اس گہرائی میں کوئی روشنی نہیں ہے۔ انسان چالیس میٹر سے زیادہ گہرائی میں آبدوز یا خاص آالت کی مدد کے بغیر غوطہ نہیں لگا سکتا۔انسان دو سو میٹر کی گہرائی میں زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔

سائنسدان حال ہی میں اس سیاہ اندھیرے کے بارے میں خاص آالت اور آبدوزوں کی مدد سے جان پائے ہیںصفحہ نمبر 68 پرڈائگرام یہاں آئے گی۔

سب سے بڑی دشمن ہے۔ توحید کو ماننے کے بعد ہر کام کا ہونا ہللا ہی سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہر عالم کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ انتصورات کی جانچ پرکھ کرے اور ان کو انسانیت کے فوائد کے لیے 68 کارآمد بنا سکے

دیگر مذاہب اور سائنس میں طویل جدوجہد کے بعد اسالم نے ہللا کے حقیقی مذہب اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ اس تناظر میں League World Muslim نے ایک کمیشن بنایا ہے جو قرآن اور سنت میں سائنسئ طور پر تصدیق شدہ حقائق کی جانچ 69 کرتا ہے

مختصر ا یہ کہ زندگی گزارنے کا کوئی بھی نظام )عیسائیت، بدھ ازم ، کیپیٹل ازم ، کمیونزم اور ھندو ازم(اس قابل نہیں کہ وہ ہللا، انسان اور قدرت کو ہم آہنگ انداز میں بیان کرسکیں۔ اس لیے ان کے سائنس کے بارے میں نظریات گمراہ کن ہیں۔ اس لیے اسالم سائنس کے بارے میں صحیح نکتہ نظر پیش کرتا ہے اور ترقی اور سائنس کے میدان میں ایجادات کو ترویج دیتا ہے۔ حقیقت کی صحیح پہچان اور انسان اور قدرت کے باہمی تعلق کی ٹھیک تفہیم اور مسلمانو ں کا سائنس کے میدان میں حصہ، اس بات کو ڈاکٹر محاثر محمد نے آکسفورڈ اسالمک فورم پر یوں بیان کیا۔

اندرونی لہریں دریاؤں اور سمندروں کے گہرے پانیوں کو ڈھانپتی ہیں کیوں کہ گہرا پانی زیادہ کثافت واال ہوتا ہے۔ اندرونی لہریں بھی سطحی لہروں کی طرح عمل کرتی ہیں۔ ان کو بھی سطحی لہروں کی طرح توڑا جاسکتا ہے۔ انسانی آنکھ سے اندرونی لہروں کو نہیں دیکھا جاسکتا مگر ان کو خاص درجہ حرارت پر محسوس کیا 66 جاسکتا ہے

درحقیقت جو آیت کائنات کی تخلیق سے متعلق ہمیں خبر دیتی ہے یہ وہی معلومات ہے کہ جس کی بناپر دو فزسٹس کو 1973 میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔تاہم یہ سائنسی حقائق پہلے ہی سے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر 67 1400 سال قبل وحی کر دئے گئے تھے دوسری بات یہ کہ توحید پر اسالم کی بنیاد ہے۔ یہ ہر طرح کے مفروضوں اور تواہمات کا رد کرتا ہے اور توہم پرستی سائنس کی

اس جدید دنیا میں مسلمانوں کا ایک حقیقی مقصد ہے۔ ان لوگوں کو روحانیت کی طرف واپس النا ہے جو کہ تیزی سے بے خدائی اور مادہ پرستی کی طرف جا رہے ہیں۔ اور وہ اس قدر متکبر ہیں کہ سوچتے ہیں کہ شاید وہ ہر سوال کا جواب جانتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جس نے تباہی کے سنگین ذرائع بنا لیے ہیں اور ان کو بےوقوف افراد کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

آج کل لوگ دنیا کو اپنی خواہش کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ اپنی تمام تر ذہانت کے استعمال کے بعد بھی وہ شاید ہی "کیوں" والے سواالت کا جواب دے پائیں۔ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ یہ کیوں اس طرح کام کرتا ہے، کائنات کا نظام جس طرح چل رہا ہے اس طرح کیوں چل رہا ہے،؟مادہ جس طرح عمل کر رہا ہے اس طرح ہی کیوں کر رہا ہے؟ آکسیجن اور ہائڈروجن پانی کیوں بناتے ہیں؟ وغیرہ۔ ہماراسائنسی بیانیہ شاید کائناتی قوانین کی ترکیب اور ترتیب تو بتا سکے مگر اس کی اصل حقیقت کا بیان شاید انسانی سائنس کے دائرہ اختیار ہی سے باہر کی چیز ہے۔

اکیسویں صدی میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں ایک ہی طرح بےقدر ہوئے ہیں۔ یہ وقت کا ایک ایسا دور ہے جو بہت سی تبدیلیاں

دیکھے گا،جس کا مسلمان حصہ ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان کا اس تغیر کے بارے میں کیا موقف ہے۔ یہ بہتر ہوگا کہ اگر مسلمان اس دور کو اپنی آنکھیں کھولی رکھ کر دیکھیں اور جو بھی کرنا چاہیں وہ دیکھ بھال کر کریں۔ اور اگر وہ اپنا ایمان اور اخالقی اقدار و بھائی چارہ کو بچا سکیں تو انہیں انسانیت کے لیے مثبت کردار ادا 70 کرنا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں یہ مناسب ہوگا کہ اس فصل کا اختتام عظیم مورخ روبنسن سے کرتے رہیں۔ جو ہسپانوی مسلمانوں کی حالت بیان کرتے ہیں اس وقت جب یورپ میں ڈارک ایجز کا دور تھا۔ یہ ایک یاددہانی ہوگی کہ اسالم ہی انسانیت کے فائدہ میں کام کرنے والی سائنس اور ٹیکنولوجی کا حقیقی رہنما ہےجب شام ڈھلتے ہی یورپ تاریکی میں ڈوب جاتا تھا تو قرطبی کی گلیاں جگ مگ کیا کرتی تھیں، یورپ آلودہ تھا اس وقت قرطبی میں ایک ہزار بیت الخالء بنائے گئے، جب یورپ کڑے مکوڑوں میں گھرا رہتا تھا تب قرطبی اپنا لباس روزانہ بدلتا تھا،یورپ کیچڑ میں رہتا تھا تب قرطبی کی گلیاں ہموار تھیں،یورپ میں دھوواں والی جگہ چھت میں سراخ ہوتا تھا تب قرطبی میں عرب گللگاری دل موہ لینے والی تھی، یورپ کے شرفاء اپنا نام نہیں لکھ پاتے تھے تب قرطبی کے بچے اسکول جایا کرتے تھے، یورپ کے پادری جب بپتسمہ کی دعا نہیں پڑھ سکتے تھے اس وقت قرطبی کے اساتذہ نے 71 وسیع و عریض مکتبے قائم کر رکھے تھے

س نتیجہ سے ایک چوتھی بحث پھوٹتی ہے جس کی طرف اسالم کی عالمگیریت اشارہ کرتی ہے وہ ہے انسانیت کو درپیش مسائل کا حل۔